سید سجاد حسین بخاری
گزشتہ چند دنوں میں ملک بھر میں سیاسی بھونچال آیا ہوا تھا۔ اپوزیشن متحد ہوگئی تھی۔ دوسری طرف حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس معطل کرنے کے بعد یہ تاثر قائم کیا گیا کہ حکومتی اتحادیوں نے عمران خان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ اس بابت (ق) لیگ کے سربراہ پرویزالٰہی نے کہا کہ ساڑھے تین سال سے ہم حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں مگر حکومت ہمارا ساتھ نہیں دے رہی۔ ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی عمران خان کو حمایت سے انکار کردیا تھا۔ پی ڈی ایم اے نے عوام میں یہ تاثر دینا شروع کردیا کہ حکومت کے خاتمے کے دن قریب آگئے ہیں۔ اپوزیشن کی دھڑا دھڑ میٹنگز ہوتی رہیں حتیٰ کہ مرکز اور پنجاب میں نئے وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کے نام بھی گردش کرنے لگے۔ پنجاب میں چودھری پرویزالٰہی، حمزہ شہباز جبکہ وزیراعظم کیلئے خورشید شاہ، شہبازشریف اور پرویز خٹک کے نام آنے لگے۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ گلگت بلتستان کے ریٹائرڈ چیف جسٹس رانا شمیم کا حلفیہ بیان سامنے آگیا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے انہیں نوازشریف اور مریم نواز کو سزا کی بابت کہا تھا۔ اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
میڈیا پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اقتدار کی جنگ رانا شمیم سکینڈل میں دب گئی۔ دو دن تک خوب لے دے ہوئی مگر عدالتی سکینڈل میں مسلم لیگ (ن) کو فائدے کے بجائے نقصان اُٹھانا پڑا کیونکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوٹس لیکر تمام فریقین کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کردیئے۔ 17نومبر کو مریم نوازنے عدالت میں حاضری کے موقع پر وہی پرانی گفتگو دُہراتی کہ میاں نوازشریف اور مجھے ناحق سزا دی گئی ہے جسے ختم کیا جائے۔ اس مقدمے کی بابت لوگوں کو یاد ہے کہ گزشتہ ماہ مریم نواز نے میڈیا سے گفتگو میں انکشاف کیا تھا کہ وہ عنقریب بہت کچھ سامنے لانی والی ہیں جس سے بھونچال آجائے گا اور عوام دیکھیں گے کہ 22کروڑ کے منتخب وزیراعظم میاں نوازشریف کو کس طرح نکالا گیا تھا اور پھر 15نومبر کو رانا شمیم سکینڈل سامنے آگیا۔ میری نظر میں اس بیانِ حلفی کی حیثیت بھی سابق جج ملک ارشد کے ویڈیو سکینڈل سے زیادہ نہیں کیونکہ رانا شمیم کے بیٹے جوکہ اپنے والد کے وکیل بھی ہیں، نے بتایا کہ میرے والد کا تعلق (ن) لیگ سے تھا اور (ن) لیگ کے عہدیدار بھی رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ خبر بھی آئی ہے کہ انہیں سندھ ہائیکورٹ سے نکالا گیا تھا اور پھر نوازشریف جب اقتدار میں آئے تو انہوں نے رانا شمیم کو براہِ راست گلگت بلتستان میں چیف جسٹس لگادیا۔ اب یہ ساری باتیں ظاہر کررہی ہیں کہ پرانے تعلق، دوستی اور لالچ کی بنیاد پر حلفیہ بیان دیا گیا ہے اور کچھ ذرائع نے تو اس بیان کو باقاعدہ ڈیل قرار دیا ہے جو نوازشریف اور رانا شمیم کے درمیان لندن میں ہوئی ہے کہ (ن) لیگ جب برسراقتدار آئے گی تو رفیق تارڑ کی طرح رانا شمیم کو بھی صدر مملکت بنایا جائے گا۔
اب سب کی نظریں اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف لگی ہوئی ہیں مگر (ن) لیگ کا یہ اقدام بھی ان کے اپنے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں عمران خان چند دن قبل شدید پریشان تھے اور اتحادی ان سے بات کرنے کیلئے تیار نہیں تھے بلکہ اپوزیشن نے نہ چاہتے ہوئے بھی حکومتی اتحادیوں سے فون کالز اور ملاقاتیں بھی کیں اور یوں لگتا تھا کہ بس عمران خان گیا۔ 14 سے 16نومبر کی صبح تک ہر حکومتی ذمہ دار پریشان تھا اور اپنی حکومت کے خاتمے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا بلکہ یہ بھی سچ ہے کہ حکومت کے 20سے 25ممبران قومی اسمبلی اپنی ذاتی ناراضگی کی وجہ سے اپوزیشن سے رابطے میں تھے مگر بالآخر یاروں نے یاری نبھائی۔ بس ایک فون کال کرکے سب کوڈھیر کردیا۔ اور تمام اتحادیوں نے خود چل کر وزیراعظم سے ملاقاتیں کرکے انہیں اپنے تعاون کی گارنٹی دے دی اور پھر میڈیا پر بھی یہ تمام ناراضگیاں ختم کرنے کا اعلان ہوا۔جونہی اتحادیوں نے وزیراعظم کو اپنی حمایت کا یقین دلایا تو ماسٹر پلان کے مطابق اسی شام صدرِ مملکت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا نوٹس جاری کردیا اور اگلے روز (17نومبر) کو صبح 12بجے اجلاس شروع ہوگیا اور اس اجلاس میں قوم کے نمائندوں نے جس تہذیب اور شائستگی کا مظاہرہ کیااس پردنیا بھرمیں ہماری جگ ہنسائی ہوئی۔ بہرحال پاکستانی قوم نے بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو خوب انجوائے کیا۔ جونہی حکومت نے اجلاس کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا تو میڈیا پر بڑے بڑے دانشوروں نے بھونڈے اور عجیب قسم کے تبصرے شروع کردیئے کہ کل ہونے والے اجلاس میں حکومت کو بڑا خطرہ ہے، کچھ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ اپوزیشن متحد ہوگئی ہے۔
حکومتی اتحادی کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ لگتا ہے اسٹیبلشمنٹ نے بھی عمران خان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے حتیٰ کہ ادھر پارلیمنٹ کا اجلاس جاری ہوچکا تھا اور اپوزیشن کے 203اراکین ایک طرف اور حکومتی 221 اراکین دوسری طرف بیٹھ چکے تھے، پھر بھی میڈیا پر حکومت کے خاتمہ اور مشکلات کی باتیں ہورہی تھیں ان دانشوروں کی جگہ کسی اندھے سے پوچھا جاتا کہ ایک طرف 203 اور دوسری طرف 221 اراکین اسمبلی وسینٹ موجود ہیں تو کس کا پلڑا بھاری ہے؟ اپوزیشن یا عمران خان کی حکومت کا تو اندھا بڑا خوبصورت جواب دیتا کہ میں آنکھوں کا اندھا ہوں، عقل کا اندھا نہیں جس طرف 221 اراکین بیٹھے ہیں وہی کامیاب ہے مگر یہ بات چینلز پر موجود لاکھوں روپے ماہوار لینے عقل کے اندھے دانشوروں کی سمجھ میں نہ آئی۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭