تازہ تر ین

حکومت اور اپوزیشن کے اختلافات کا حل

ڈاکٹر محمدممتاز مونس
ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے اس لیے ماں نے ہی تمام بچوں کو پالنا ہوتا ہے اور ان کا خیال رکھنا ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں ایسا فرسودہ نظام بنا دیا گیا کہ حالات کسی کے بھی کنٹرول میں آنے کا نام نہیں لیتے۔ وزیر اعظم عمران خان کے دعوے اور وعدے اپنی جگہ لیکن مجموعی طور پر ناقدین ان کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ مسئلے کا حل نکالنا ہو تو کوئی بڑی بات نہیں ہوتی لیکن اگر اختلاف برائے اختلاف رکھنا ہو تو پھر مسائل ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے۔
اپوزیشن کی تمام جماعتیں متحد ہو چکی ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ صرف اور صرف تحریک انصاف کو نکال کر باقی سب اکٹھے ہیں تو غلط نہ ہو گا کیونکہ ایم کیو ایم اور(ق) لیگ اب حکومت کو مکمل طور پر آنکھیں دکھاتے نظر آتے ہیں۔ حکومت کے لیے اور بھی بحران ہیں لیکن اب بلوچستان سے چلنے والی عدم اعتماد کی ہوا ایوان بالا پھر پنجاب اور یوں مرکز تک چلتے نظر آتی ہے۔ اہم ذرائع کے مطابق سینٹ میں تحریک عدم اعتماد بہت جلد پیش کر دی جائے گی اور اپوزیشن اتحاد سینٹ میں اپنی نمبرز آف گیم مکمل کرنے کے بعد یہ معرکہ سر انجام دے گی لیکن ابھی تک آئندہ چیئرمین سینٹ کے لیے نام فائنل نہیں ہو سکا۔ پیپلز پارٹی چیئرمین سینٹ لے کر (ن) لیگ کو وزیر اعلیٰ پنجاب دینے کی آفر کرا چکی ہے مگر یہ تقسیم ہوتی نظر نہیں آتی۔ سینٹ کے پہلے الیکشن میں بھی (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنی اپنی بغل میں چھریاں رکھی ہوئی تھیں کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کے بد ترین مخالف اب دوسری مخالف جماعت کو کیسے چیئرمین سینٹ کی ٹکٹ جاری کر دیں پیپلز پارٹی نے تو دو ٹوک الفاظ میں سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کا نام پیش کر دیا ہے لیکن محترمہ مریم نواز کسی بھی قیمت پر یہ ماننے کو تیار نہیں جبکہ شاید مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے حمزہ شہباز شریف کا نام بھی قابل قبول نہیں اس لیے عدم اعتماد کی تحریکیں اس صورت میں کامیاب ہو سکتی ہیں جب اپوزیشن جماعتیں پہلے چیئرمین سینٹ کے لیے سید یوسف رضا گیلانی اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے حمزہ شہباز کے ناموں پر متفق ہو جائیں لیکن مولانا فضل الرحمن عدم اعتماد لا کر بعد میں امیدوار لانے کا مشورہ دے رہے ہیں جو کہ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ دونوں کو ہی قابل قبول نہیں۔
اسلام آباد میں دسمبر اور جنوری میں موسم انتہائی سرد ہوتا ہے بارشیں اور تیز ٹھنڈی ہوائیں کسی بھی صورت میں لانگ مارچ یا دھرنے کے لیے موزوں نہیں لیکن مولانا فضل الرحمن دسمبر میں لانگ مارچ کروانا چاہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی لانگ مارچ کی حامی نہیں اور (ن) لیگ لانگ مارچ کی متحمل نہیں اب یہ لانگ مارچ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا اگر اپوزیشن یوں ہی متحد رہی تو کہیں نہ کہیں عدم اعتماد یا لانگ مارچ جیسا دھماکہ کر سکتی ہے دوسری طرف محترمہ مریم نواز کا اپنے قریبی ساتھیوں کویہ کہنا کہ پیپلز پارٹی کے پاس 50قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین موجود ہیں جنہیں اگر (ن) لیگ آئندہ الیکشن میں ٹکٹ دے دے تو وہ اپنی جماعت تحریک انصاف کو چھوڑ کر آنے کو تیار ہیں لیکن میاں نواز شریف ان لوٹوں کو ٹکٹ دیکر اپنے امیدواروں کو ضائع کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتے۔ یوسف رضا گیلانی کے سینٹ کے الیکشن میں بھاری نذرانہ لے کر ووٹ دینے والے تحریک انصاف کے لوٹوں کی مکمل لسٹ بھی ثبوت کے ساتھ وزیراعظم عمران خان کے پاس پہنچ چکی ہے آئندہ وہ انہیں کسی بھی صورت میں ٹکٹ نہ دینے کا کہہ چکے ہیں ایسی صورت میں ان اراکین اسمبلی کا مستقبل کیا ہو گا یہ بھی پاکستان کی سیاست میں کسی سوالیہ نشان سے کم نہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے حصول اقتدار کے لیے عوام سے کیے ہوئے وعدے پورے کرنے کی کوشش کے باوجود شاید بین الاقوامی حالات اور کرونا کی موذی وباء سے پورے نہ ہو سکے لیکن مجموعی طور پر انہوں نے اپنے سب سے بڑے نعرے کرپشن کے خلاف جنگ کا بھی کوئی حل نہ نکالا۔ عدالتوں سے یا نیب سے یا ایف آئی اے سے جہاں سے مرضی ہو سکے ملک لوٹنے والوں سے پیسے نکلوانے میں بری طرح ناکام رہے۔ کم از کم ملک لوٹنے والوں سے پیسے نکلوانے اس حد تک مایوسی کا سامنا کرنا تھا تو پھر انہیں اتنے بلند وبانگ دعوے نہیں کرنے چاہیے تھے آئندہ انتخابات میں وہ کیا کہیں گے کہ میں نے ملک لوٹنے والوں کو موجودہ نظام کی وجہ سے منطقی انجام تک نہیں پہنچایا یا یہ وضاحت کریں گے کہ میاں نواز شریف ان کی مرکزی اور صوبائی حکومت ہونے کے باوجود عدالتوں سے سزا یافتہ ہونے کے باوجود راتوں رات کیسے باہر چلے گئے۔ این آر او کے خلاف سب سے بلند آواز عمران خان کی آواز آئندہ عوام کو میاں نواز شریف کے این آر او کے بارے میں کیا وضاحت پیش کر سکے گی۔
جس طرح تحریک لبیک کے ساتھ معاملے کو حکومت نے پہلے خراب کیا چلو بڑوں کی ہی مداخلت یا فہم وفراست سے ہی کہ تحریک لبیک بارے حکمران اپنے دورے اقتدار کا ایک بہترین فیصلہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ورنہ شہری بھی پاکستانی اور فورسز بھی پاکستانی معاملہ بھی پاکستانی کیوں قیمتی جانوں کا نقصان کیا جاتا اس معاہدے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تحریک لبیک کے کارکنوں کو مشتعل کرنے کی بجائے پہلے ہی ان پر بے جا پابندیاں نہ لگائی جاتیں اور ریاست ماں کا کردار ادا کرتی تو شاید بات اتنی نہ بگڑتی چلیں دیر آئے درست آئے کے مصداق ایک اچھا کام ہوا اللہ کرے دونوں فریقین ثابت قدم رہیں۔ تحریک لبیک کی طرح ریاست کو چاہیے کہ ایک مرتبہ پھر ماں کا کردار ادا کرے اپوزیشن اور سیاسی مخالفین کو ملک کا مخالف قرار دینے کی بجائے ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں جنہوں نے جتنا مال کمانا تھا کما لیا آپ ساڑھے تین سالوں میں ایک پھوٹی کوڑی ان سے نہیں نکلوا سکے پھر تحریک لبیک سے معاہدے کی طرح ریاست ایک قدم پیچھے ہٹ کر اپوزیشن سے بھی کوئی ایسا معاہدہ کرے جو ملک و ملت کے لیے ایسا فیصلہ ہو جیسا فیصلہ ماں کرتی ہے۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain