لاہور (ایجوکیشن رپورٹر) قائداعظم محمد علی جناحؒ پاکستان کو ایک جدید اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ آج ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ ہم پاکستان کو بانی پاکستان کے تصورات کا آئینہ دار بنانے میں کس قدر کامیاب ہوئے ہیں؟۔ نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے زیراہتمام 2017ءکو 70ویں سالِ آزادی کے طور پر منایا جا رہا ہے اور آج کا یہ پروگرام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان خیالات کااظہار تحریک پاکستان کے مخلص کارکن، سابق صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان و چیئرمین نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ محمد رفیق تارڑ نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان، لاہور میں 70ویں سال آزادی کی مناسبت سے جاری تقریبات کے سلسلے میں منعقدہ خصوصی لیکچر بعنوان ”قائداعظمؒ کا تصور پاکستان“ کے دوران اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ اس پروگرام کے کلیدی مقررممتاز صحافی اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز(سی پی این ای) کے صدر ضیا شاہدتھے۔ پروگرام کا اہتمام نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ نے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک، نعت رسول مقبول اور قومی ترانہ سے ہوا۔ بلال ساحل نے تلاوت جبکہ الحاج اختر حسین قریشی نے نعت رسول مقبول سنانے کی سعادت حاصل کی۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض سیکرٹری نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ شاہد رشید نے انجام دیئے۔ سابق صدرمحمد رفیق تارڑ نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ ایک پاک صاف ذہن کے مالک‘ راست فکر اور راست گو انسان تھے۔ ان کے دل و دماغ میں یہ بات سما گئی تھی کہ برصغیر کے مسلمانوں کو انگریزوں سے آزادی دلائی جائے نیز ہندو اکثریت کی غلامی میں جانے سے محفوظ رکھا جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ مسلمانوں کی ایک ایسی مملکت قائم کرنا چاہتے تھے جہاں وہ قرآن و سنت کے احکامات و تعلیمات کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کر سکیں۔ میں بلاخوف تردید یہ بات کہتا ہوں کہ قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کو ایک جدید اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے اور خلیفہ¿ راشد حضرت عمر فاروقؓ کے نظام حکومت جیسا نظام پاکستان میں رائج ہوتے دیکھنا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بابائے قوم پاکستان کی سیاست‘ معیشت اور معاشرت کو دین اسلام کے زریں اصولوں پر استوار کر کے دنیا پر ثابت کرنا چاہتے تھے کہ یہ اصول آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیںجس طرح رسول کریم اور خلفائے راشدینؓ کے زمانے میں تھے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر ان کے خطاب سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ وہ پاکستان میں اسلامی معیشت کو رائج دیکھنا چاہتے تھے اور یہاں ہر قسم کے استحصال سے پاک معاشرہ دیکھنے کے آرزومند تھے جس میں غریبوں کو بھی آگے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے یکساں اور بھرپور مواقع حاصل ہوں۔ وہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کا سوفیصد تحفظ چاہتے تھے اور انہیں برابر کا شہری تصور کرتے تھے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ پاکستان کو اقوام عالم میں ایک ممتاز مقام پر فائز ددیکھنے کے آرزومند تھے۔ ان کا فرمانا تھا: ”مسلمانوں کے لیے یہ ایک لازمی اور ناگزیر امر ہے کہ وہ آزادانہ زندگی بسر کرنے کے لیے اپنی اکثریت کے علاقوں میں ایک الگ آزاد ریاست قائم کریں لیکن تحریک پاکستان کا صرف یہی مقصد نہیں ہے۔ پاکستان کا ایک دوسرا زیادہ ارفع پہلو یہ ہے کہ یہ ایک ایسا اڈہ ہو گا جہاں ہم مسلمان دانشور‘ ماہرینِ معیشت و تعلیم‘ سائنس دان‘ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ ٹیکنیکل اور دیگر کاریگر پیدا کرنے اور انہیں تربیت یافتہ بنانے کے قابل ہو جائیں گے اور یہ احیائے اسلام کے لیے کام کریں گے۔
اپنے لیکچر میں ضیا شاہد نے کہا کہ برصغیر میں مسلمانوں کی اکثریت والے علاقوں میں الگ ریاست بنانے کا خواب دیکھا گیا ۔ اس میں چاہے جمال الدین افغانی کی تھیوری ہو‘ علامہ محمد اقبالؒ کا خطبہ¿ الٰہ آباد ہو یا چوہدری رحمت علی کی کتاب ”Now or Neve“میں موجود تصور ہو‘متعدد افراد نے اس پر کام کیا۔ سر سید احمد خان کی تحریک نے بھی مسلمانوں میں بیداری پیدا کی ۔قائداعظمؒ کا تصور یہ تھا کہ نہ صرف مسلمانوں کیلئے الگ ریاست قائم ہو بلکہ ایک اسلامی فلاحی ریاست کا ماڈل بنا کر پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔کہ اگر ہمیں نظام حکومت دیا جائے تو ہم ایک ایسا ماڈل معاشرہ دیں گے جس کا افسر، جج، وکیل، استاد، پولیس، تاجر وغیرہ اور انتخابی نظام بھی مثالی ہو گا۔آج ہم میں سے ہرایک اس بات کا جائزہ لے کہ ہمارایہ سفر کن ارادوں اور مقاصد کے ساتھ شروع کیا گیا تھا اور آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ قائداعظمؒ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا تھا کہ اگر میرے بنائے گئے پاکستان میں محروم کو چھت، غریب کو روٹی اور مظلوم کو انصاف نہیں ملتا ہے تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہئے۔ میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کیایہ ایسا ہی پاکستان ہے جس کا خواب قائداعظمؒ نے دیکھا تھا؟۔ قائداعظمؒ پاکستان کو ایک مثالی اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ ضیاءشاہد نے کہا میں نے ایک حالیہ میٹنگ میں سیاستدانوں سے یہی مطالبہ کیا گیا ہے کہ مجھے ایسا پاکستان دو جس کا قائداعظمؒ نے تصور دیا تھا۔ قائداعظمؒ کی تقاریر کا مطالعہ کریں ، انہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں کچھ اصول متعین کر کے ہمیں ہدایات دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر قوم اپنے ملک کے بانی کی بے انتہا عزت اوراحترام کرتی اور ان کے افکارونظریات پر عمل پیرا رہتی ہے۔ میری بھی خواہش ہے کہ ہمارے ملک کے ہر طالبعلم، سرکاری ملازم، تاجر، صحافی، وکیل، غرضیکہ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے پاس قائداعظمؒ کے اقوال کی کتاب موجود ہو۔ انہوں نے کہا کہ آج پاکستان دشمن اور پاکستان کے بنیادی نظریات کے مخالف بھی یہاں فخر کے ساتھ رہ رہے ہیں‘ان کیخلاف آواز بلند کرنی چاہئے۔ موجودہ حالات میں نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کا وجود ایک غنیمت ہے۔یہ ادارہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی کرن ہے اور قائداعظمؒ کے افکارونظریات نئی نسل تک پہنچا رہا ہے۔میری گزارش ہے کہ یہاں ایک ایسا تحقیقی سیل قائم کیا جائے جو نظریاتی لڑائی لڑے اور پاکستان یا اس کے بنیادی نظریات کیخلاف بولنے والے عناصر کو بھرپور دلائل کے ساتھ منہ توڑ جواب دے۔اگر یہ ادارہ ایسا نہیں کرے گا تو پھر میرا سوال ہے کہ پاکستان بھر میں اور کون یہ کام کرے گا؟۔انہوں نے کہا کہ میں نے قائداعظمؒ کی زندگی کے دلچسپ اور سبق آموز واقعات پر مبنی ایک کتاب تحریر کی ہے جس میں ہر بات ریفرنس کے ساتھ موجود ہے۔قائداعظمؒ کا دوقومی نظریہ اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا کہ مسلمان اور ہندو ہر لحاظ سے الگ قوم ہیں۔انہوں نے کہا میں موجودہ حالات سے بالکل بھی مایوس نہیں ہوں ، پاکستان کے عوام میں سیاسی شعور بلند ہو رہا ہے اور یہی شعور ہمارے لیے امید کی کرن ہے۔یہ وہی شعور ہے جو قائداعظمؒ نے1940ءکی دہائی میں برصغیر کے مسلم عوام میں بیدار کیا تھا۔ ہمیں نئی نسل سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ انہوں نے کہا میں نے اپنی صحافتی زندگی میں مجید نظامی جیسا نڈر ، بے خوف اور حوصلہ مندایڈیٹر نہیں دیکھا۔ہمیں آج ان کی کمی بڑی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ ان خیالات کااظہار ممتاز صحافی اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرزسی پی این ای کے صدر ضیاءشاہد نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان ،لاہور میں منعقدہ خصوصی لیکچر بعنوان ”قائداعظمؒ کا تصور پاکستان“ کے دوران کیا۔
شاہد رشید نے کہا کہ نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ محمد رفیق تارڑ کی قیادت میں پوری قوم بالخصوص نئی نسلوں کو تحریک پاکستان ، دوقومی نظریہ، قیام پاکستان کے حقیقی اسباب مقاصد اور مشاہیر تحریک آزادی کے افکارونظریات سے آگاہ کر رہا ہے۔ ہمارے آباواجداد نے ایک علیحدہ وطن کے حصول کیلئے جان ومال کی لازوال قربانیاں دیں۔انہوں نے بتایا کہ موجودہ سال 2017ءکو 70ویں سال آزادی کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ اس مقصد کیلئے ایک جامع پروگرام طے کیا گیا ہے۔ سالِ آزادی کی سرگرمیاں پورے سال پر محیط ہوں گی۔ اس پروگرام میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔