اسلام آباد (صباح نیوز‘مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی سماعت سوموار تک ملتوی کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ اس اہم نوعیت کے مقدمہ میں سچ تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ عدالت کو بے اختیار نہ سمجھا جائے، عدالت کے پاس اختیار ہے کہ ریکارڈ پیش کرنے کا حکم جاری کرے، ثبوت پیش کرنے کی ذمہ داری اس پر ہوتی ہے جس کے پاس جائیداد ہو اگر آف شور کمپنیاں شریف خاندان کی ہیں تو انہیں ریکارڈ فراہم کرنا پڑے گا اگر شریف فیملی نے ثبوت نہ دیئے تو عمران خان کی بات ماننا پڑے گی۔ اگر شریف خاندان کمپنیوں کی ملکیت تسلیم کرتی ہے تو دستاویز فراہم کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے، انہیں بتانا پڑے گا کہ کمپنیاں کب بنیں، کس نے بنائیں اور اس کے لیے پیسہ کہاں سے آیا۔ دوسرے فریق کا موقف سن کر حکم دے سکتے ہیں کہ دستاویز پیش کریں ۔ آئین کے تحت کچھ درخواست گذار کو بھی ثابت کرنا ہے لیکن اس موقع پر اس پر بات کرنا قبل ازوقت ہو گا۔ شواہد ریکارڈ کرنے کی بات کریں تو درخواست گذار بائیکاٹ کا کہتے ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے جمعہ کومسلسل تیسرے روز پاناما کیس کی سماعت جاری رکھی اس دوران عمران خان کے وکیل نعیم بخاری کے دلائل جاری تھے کہ عدالتی وقت ختم ہونے پر سماعت سوموار تک ملتوی کردی گئی ، دوران سمات جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم کےخلاف الیکشن کمیشن میں بھی یہی معاملہ زیر سماعت ہے اور الیکشن کمیشن میں درخواستیں سپریم کورٹ کے بعد دائر ہوئیں یا پہلے۔ جس پر شاہد حامد نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے روبرو بھی وزیراعظم کی نااہلی کا معاملہ ہے اور الیکشن کمیشن میں درخوستیں پہلے سے دائر تھیں۔اس کے علاوہ عمران خان کی جانب سے شریف فیملی کے مالیاتی مشیر ہارون پاشا کانجی ٹی وی کو دیا گیا انٹرویو بطور ثبوت عدالت میں جمع کرایا گیا انٹرویو انہوں نے 6 دسمبر 2016 کو نجی ٹی وی کو دیا تھا۔ عمران خان کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ انٹرویو کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مریم نواز کے نام سے1993 سے 1996 کے درمیان بے نامی فلیٹس خریدے گئے، جب فلیٹ خریدے گئے اس وقت مریم نواز کم عمر تھیں اور ان کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا، دنیا کو دکھانے کے لیے مریم صفدر کو بینیفشری ظاہر کیا گیا، ان کے اصل مالک نواز شریف ہیں، اسی طرح دبئی میں بھی بے نامی اسٹیل مل لگائی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ مریم نواز آف شور کمپنیوں کی بینیفیشل مالک ہیں لیکن ان کے پاس جائیداد کے لئے رقم نہیں تھی، 2011 میں مریم نواز نے چوہدری شوگر مل سے 4 کروڑ 23لاکھ جب کہ 2012 میں اپنے بھائی حسن نواز سے 2 کروڑ 89 لاکھ روپے قرض لیا۔ 2013 میں پھر والد نے 3 کروڑ سے زائد کی رقم بطور تحفہ دی۔وکیل نعیم بخاری نے موقف اپنایا کہ 2011میں وزیرا عظم نے بیٹی کو 3کروڑ 70لاکھ بطور تحفہ دیے اور جب فلیٹ خریدے گئے تب مریم نواز کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا ۔ 2013میں پھر والد نے 3کروڑ سے زائد کی رقم بطور تحفہ دی جبکہ 2011میں مریم نواز نے چوہدری شوگر مل سے 4کروڑ 23لاکھ کا قرضہ لیا اور 2012میں مریم نواز نے اپنے بھائی حسن نواز سے 2کروڑ 89لاکھ قرض لیا ۔جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ مریم نوا ز کو چوہدری شوگر مل میں شیئر ہولڈر کب بنایا گیا ؟ جسٹس اعجا ز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ کمپنی سے متعلق ریکارڈ ایس ای سی پی کے پاس موجود ہوتا ہے ۔نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تحقیقاتی کمپنیوں نے موزیک سے آف شور کمپنیوں کی تفصیل مانگی تاہم تحقیقاتی ادارے نے کمپنیوں کی ملکیت اوردیگر امور کا دریافت کیا ۔ تحقیقاتی ادارو ں کو بتایا گیا کہ لندن فلیٹس کرائے پر نہیں دیے گئے اور یہ بھی بتایا گیا کہ فلیٹس میں مریم نواز اور فیملی رہائش پزیر ہیں ۔ سامبا بینک نے کہا کہ مریم ہماری اکانٹ ہولڈر ہیں جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ بخاری صاحب آپکے دلائل سے مریم کا زیر کفالت ہونے کا معاملہ واضح نہیں ہوتا ۔۔کیا مریم کو جائیدا دمنتقلی کا دستاویزی ثبوت ہے؟جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ اس حوالے سے کوئی دستاویز نہیں ہے عدالت نے ابزرویشن دی کہ ایک دستاویز مریم کا سامبا بینک اور منروا کمپنی سے تعلق ظاہر کرتی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ مریم نوا زکا کمپنیوں سے تعلق 2005سے لگتا ہے ۔جسٹس اعجاز افضل نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ کیاآپکے پاس ایسی کوئی دستاویز ہے جو مریم نواز کی 2006کی ٹرسٹ ڈیڈ غلط ثابت کرسکے ؟ تو نعیم بخاری نے جواب دیا کہ اپنی دستاویز درست ثابت کرنا مریم نواز کی ذمہ داری ہے ۔نعیم بخاری نے موقف اپنایا کہ مریم نواز کے پاس سرمایہ نہیں تھا کہ فلیٹس خرید سکتیں تو عدالت نے ریمارکس دیے کہ بظاہر لگتا ہے خاندانی سرمائے سے فلیٹس خریدے گئے۔جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ لندن فلیٹس مریم نواز کو کب اور کیسے منتقل ہوئے۔ کیا مریم کو جائیداد منتقلی کا کوئی دستاویزی ثبوت ہے،کوئی ایسی دستاویز ہے جس سے ثابت ہو کہ 2006کی ٹرسٹ ڈیڈ غلط ہے۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جائیداد کی تفصیل سے متعلق کوئی دستاویز نہیں تاہم مریم نواز کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی فراہم کردہ دستاویز درست ثابت کریں، ایک دستاویز میں مریم نواز سامبا بنک اور منروا کمپنی سے تعلق ظاہر کرتی ہیں، تحقیقاتی ادارے نے موزیک فرم سے آف شور کمپنیوں کی تفصیلات مانگیں اور کمپنیوں کی ملکیت اور دیگر امور سے متعلق دریافت کیا، تحقیقاتی ادارے کو بتایا گیا کہ لندن فلیٹس کرائے پر نہیں دیئے گئے، ان میں مریم اور ان کی فیملی رہائش پذیر ہے۔جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ بے نامی جائیدادوں سے متعلق قانون موجود ہے، کیا تحفے میں دی گئی رقم بے نامی ہو جاتی ہے، تنازع صرف ٹرسٹی اور بینیفیشل مالک کا ہے، مریم اور حسین نواز کے ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط ہیں اور دونوں ٹرسٹی اس ڈیڈ کو تسلیم بھی کرتے ہیں، فلیٹس کی آمدن نہیں تھی تو ٹرسٹ ڈیڈ کی کیا ضرورت تھی۔ موزیک فرم کو ٹرسٹ ڈیڈ کا نہیں بتایا گیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اصل سوال ریکارڈ کا ہے، بار ثبوت اس پر ہوتا ہے جس کے قبضے میں چیز ہوتی ہے، معلوماتی خط میں مریم نواز کے ذرائع آمدن فیملی بزنس لکھا ہے، اس بات سے کس حد تک خاندان کے دوسرے لوگوں سے تعلق بنتا ہے، دوسرا فریق بتائے کمپنیاں کب بنی ،کس نے بنائی اور پیسہ کہاں سے آیا، دوسرے فریق کا موقف سن کر حکم دے سکتے ہیں کہ دستاویز پیش کریں، عدالت کا اختیار ہے کہ دستاویز طلب کرے۔ سچ تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر شریف خاندان کے وکیل منروا فنانشل سروسز لمیٹڈ سے اپنی ملکیت ثابت کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو عدالت کو یہ ماننا پڑے گا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے وکیل کے دعوے درست ہیں۔دستاویزات کے درست ہونے کے بارے میں نعیم بخاری کے دلائل پر عدالت کا کہنا تھا کہ دستاویزات سے متعلق عدالت کو مطمئن کیا جائے، جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر شریف خاندان کمپنیوں کی ملکیت تسلیم کرتی ہے تو دستاویز فراہم کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے، انہیں بتانا پڑے گا کہ کمپنیاں کب بنیں، کس نے بنائیں اور اس کے لیے پیسہ کہاں سے آیا۔ ۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ التوفیق کیس میں میاں شریف۔ عباس شریف اور شہباز شریف کا نام ہے جبکہ مریم کا نام نہیں ہے نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ مریم نواز آف شور کمپنیوں کی بینیفیشل مالک ہیں۔ مریم نواز کے پاس جائیداد کے لئے رقم نہیں تھی۔ ۔،جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ بادی النظرمیں لگتا ہے کہ فلیٹس شریف خاندان کے سرمایہ سے خریدے گئے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ تنازعہ صرف ٹرسٹی اور بینیفیشل مالک کا ہے ۔موسیکافونسیکا فرم کو ٹرسٹ ڈیڈ کا نہیں بتایا گیا لیکن سوال ہے کہ کیا ٹرسٹ ڈیڈ قانون کے مطابق ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ سوال یہ بھی ہے کہا موزیکافونسیکا کمپنی کو اس بارے میں قانونی طور پر معلومات فراہم کی جاسکتی ہے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ فلیٹس کی آمدن نہیں تھی تو ٹرسٹ ڈیڈ کی کیا ضرورت تھی۔لیکن مریم نواز کے نام پر دونوں فریق کسی حد تک متفق ہیں۔ دبئی میں بے نامی جائیداد کے حوالے سے نعیم بخاری کے دلائل پر جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ معلوماتی خط میں مریم نواز کے زرائع فیملی بزنس لکھا ہے۔اس بات سے کس حد تک خاندان کے دوسرے لوگوں سے تعلق بنتا ہے ۔ جسٹس عظمت کا کہنا تھا کہ مریم اور حسین نواز کے ٹرسٹ ڈید پر دستخط ہیں ۔ دونوں ٹرسٹی ڈیڈ کو تسلیم کرتے ہیں ۔ بے نامی صرف کہہ دینا کافی نہیں ہو گا۔ بے نامی کا قانون موجود ہے صرف گپ شپ سے نہیں ہو گا ۔ ٹرسٹ ڈیڈ کا قانونی ہونا بھی ایک سوال ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ وہ کمپنیوں ملکیت تسلیم کرتے ہیں تو دستاویز دینا بھی انکی ذمہ داری ہے۔دوسرے فریق کی ذمہ داری ہے کہ بتائے کمپنیاں کب بنی کس نے بنائی اور پیسہ کہاں سے آیا اور اصل سوال ریکارڈ کا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ منی ٹریل پیش کرنے کا حکم بھی عدالت دے سکتی ہے۔ جسٹس عظمت سعید کاکہنا تھا کہ تفصیل نہیں دیں گے تو دستاویزات ادھوری ہوں گی،جسٹس اعجاز افضل کا نعیم بخاری سے کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں نہ انکوئری چل رہی ہے نہ ٹرائل کورٹ، دستاویزات سے متعلق عدالت کو مطمئن کریں، جسٹس عظمت نے نعیم بخاری کوبرطانوی فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی کی طرف سے موسیکافونسیکاکو کی گئی ای میلز کا ریکارڈ دکھانے پر کہاکہ ای میل براہ راست شکایت کنندہ کو نہیں بھیجی گئی۔جسٹس اعجاز افضل خان کا نعیم بخاری سے کہنا تھا کہ دوسرے فریق کا موقف سن کر حکم دے سکتے ہیں کہ دستاویز پیش کریں لیکن آئین کے تحت کچھ آپ کو بھی ثابت کرنا ہے آپ اپنے دلائل دیں اس موقع پر ان پر بات کرنا قبل ازوقت ہو گا۔انہوں نے عمران خان کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہابخاری صاحب آپ اپنے پتے سامنے لائیں پھر ہم دوسرے فریق کو بھی سنیں گے۔جسٹس عظمت سعید نے نعیم بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سے شواھد ریکارڈ کرنے کی بات کریں تو آپ بائیکاٹ کا کہتے ہیں ۔۔ کیونکہ تفصیل نہیں دیں گے تو دستاویزات ادھوری ہوں گی، بعد ازاں مقدمات کی مزید سماعت سوموار کی صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی گئی اس روز بھی نعیم بخاری اپنے دلائل جاری رکھیں گے ۔