راولپنڈی (بیورو رپورٹ) پارلیمنٹ کی جانب سے مشترکہ طور پر آئین میں 21 ویں ترمیم کے ذریعے قائم کی جانے والی فوجی عدالتوں کو دو سال کیلئے دیئے جانے والے خصوصی اختیارات ختم ہونے کے بعد فوجی عدالتوں نے کام کرنا بند کر دیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں اس بات کی تصدیق کردی گئی کہ فوجی عدالتوں کو حاصل خصوصی اختیارات کی میعاد ختم ہونے کے بعد ملٹری کورٹس نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کے حملے کے بعد 6 جنوری 2015 کو آئین میں 21 ویں ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ 2015 (ترمیمی) کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد فوجی عدالتوں کو خصوصی اختیارات دیئے گئے تھے جس کا مقصد ان سول افراد کا ٹرائل کرنا تھا جن پر دہشت گردی کے الزامات تھے۔آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق فوجی عدالتیں اس وقت آئینی ترمیم کے ذریعے قائم کی گئی تھیں جب دہشت گردی عروج پر تھی۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ دو سالہ مدت کے دوران فوجی عدالتوں کو 274 کیسز بھیجے گئے جن میں سے 161 مجرموں کو سزائے موت سنائی گئی اور اب تک 12 ملزمان کو پھانسی دی جاچکی ہے، اس کے علاوہ 113مجرموں کو قید کی سزائیں دی گئیں۔ آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا کہ فوجی عدالتوں میں آنے والے تمام مقدمات کی سماعت کے دوران انصاف کے تقاضے پورے کئے گئے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ فوجی عدالتوں کی جانب سے سنائے جانے والے فیصلوں سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی میں مدد ملی۔ آخر میں آئی ایس پی آر کے بیان میں بتایا گیا کہ فوجی عدالتوں کو حاصل خصوصی اختیارات کی میعاد ختم ہونے کے بعد ملٹری کورٹس نے اپنا کام بند کردیا ہے۔یاد رہے کہ فوجی عدالتوں نے فروری 2015 سے ٹرائل کا آغاز کیا تھا، ان کی جانب سے پہلے مجرم کو اسی سال اپریل میں جبکہ آخری مجرم کو 28 دسمبر 2016 کو سزا سنائی گئی۔ یہ بھی یاد رہے کہ ابتدا میں فوجی عدالتوں کے قیام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ درخواست گزار نے سپریم کورٹ میں مو¿قف اختیار کیا تھا کہ آئین میں کی جانے والی 21ویں ترمیم موجودہ عدلیہ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتی ہے جو انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے۔مذکورہ پٹیشن سپریم کورٹ کی جانب سے خارج کردی گئی تھی۔فوجی عدالتوں کی جانب سے ٹرائل کے دوران جن افراد کو سزائے موت اور عمر قید دی گئی ان کا تعلق القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، جماعت الحرار، توحید جہاد گروپ، جیش محمد، حرکت الجہاد اسلامی، لشکر جھنگوی، لشکر جھنگوی العالمی، لشکراسلام اور سپاہ صحابہ سے تھا۔ فوجی عدالتوں نے جن اہم اور معروف مقدمات کا ٹرائل کیا ان میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والا حملہ، صفورہ بس حملہ، سماجی کارکن سبین محمود کا قتل، معروف صحافی رضا خان رومی پر حملہ، بنوں کی جیل پر ہونے والا حملہ، راولپنڈی کی پریڈ لین مسجد میں ہونے والا بم دھماکا، ناگا پربت بیس کیمپ پر غیر ملکیوں کا قتل، مستونگ میں اہل تشیع کمیونٹی پر ہونے والا حملہ، اورکرزئی ایجنسی میں فوجی ہیلی کاپٹر پر حملہ، پشاور میں پی آئی اے کے طیارے پر ہونے والا حملہ، میریٹ ہوٹل دھماکا، کراچی ایئر پورٹ حملہ، فرقہ وارانہ دہشت گردی، قانونی نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر ہونے والے حملے، پولیو کی ٹیموں اور تعلیمی اداروں پر ہونے والے حملے شامل ہیں۔