ملک منظور احمد
احتساب اور بلاامتیاز احتساب پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی منشور میں ایک اہم ترین وعدہ تھا جو کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے سپورٹرز کے ساتھ کیا۔ اگرچہ کہ ملک میں احتساب کا عمل ان کے بر سر اقتدار آنے سے پہلے ہی شروع ہوچکا تھا۔ سابق وزیر اعظم نااہل قرار پا چکے تھے، اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں کے خلاف بھی کارروائی شروع ہو چکی تھی لیکن بہرحال اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد احتساب کے عمل میں خاطرخواہ تیزی آئی اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سمیت اہم ترین اپوزیشن رہنماؤں کو نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ ان پر اربوں کی کرپشن کے الزامات لگائے گئے اور دعویٰ کیا گیا کہ ان رہنماؤں سے ملک کی لوٹی ہوئی دولت کے اربوں روپے نکلوائے جا ئیں گے لیکن آج ہم اس حوالے سے کہا ں کھڑے ہوئے ہیں؟ شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، رانا ثنا اللہ اور خورشید شاہ سمیت دیگر رہنما ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں ضمانت کے فیصلوں میں ہائی کورٹس اور کچھ کیسز میں سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ نیب کی جانب سے اپنے الزامات کے حق میں کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے گئے ہیں اور اب اس سب کے بعد ہم آج یہاں کھڑے ہوئے ہیں۔
نیب کا ادارہ جو کہ کرپشن کے خلاف اس جنگ میں صف اول میں تھا اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے گزشتہ چند سالوں میں اربوں روپے ریکور کرکے ملکی خزانے میں جمع کروائے ہیں لیکن نیب کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا اتفاق ہے کہ نیب نے یہ ریکوری کا روباری سمیت دیگر افراد سے کی ہے۔ سیاستدانوں سے اور ہائی پروفائل سیاستدانوں سے نیب کچھ بھی ریکور نہیں کر سکا ہے۔یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ وزیراعظم کی خواہش کے باوجود ملک میں اس طرح کا احتساب نہیں ہو سکا جس کی امید وہ کیے ہو ئے تھے اور بات کا اظہار انہوں نے میڈیا پر بر ملا بھی کیا ہے۔اب اس کی وجہ کیا ہے اس حوالے سے غور کرنے کی ضرورت ہے؟ کچھ لوگ تو حکومت کی جانب سے اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف بنائے جانے والے کیسز کو کمزور اور بدنیتی پر قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کیسز میں کمزوری کی وجہ سے ریلیف اپوزیشن کو مل رہا ہے جبکہ بعض کی جانب سے پراسیکیوشن کی کمزوری کو اس ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا تا ہے اور بعض جانب سے تو عدلیہ کے خلاف بھی کچھ انگلیاں اٹھتی ہیں۔
بہرحال اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ملک میں احتساب کا عمل اور حکومتی احتساب کا بیانیہ ناکامی کی جانب جاتا ہو ا محسوس ہو تا ہے۔اوپر سے سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ پونے چار سال کے بعد جو شخص حکومتی احتساب کے عمل اور بیانیہ کو لیڈ کررہا ہے، وہ ایک طرح سے اپنی ناکامی کے اعتراف میں استعفیٰ دے کر چلا گیا اور بعض ذرائع کے مطابق تو ان سے استعفیٰ لیا گیا۔ اس واقعے نے بھی خاص طور پر حکومت کے احتساب کے بیانیہ کو بہت زک پہنچائی ہے۔
ظاہر ہے جب سپہ سالار ہی ناکامی کا اعتراف کر لے تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے لیکن وزیر اعظم عمرا ن خان اس حوالے سے پر امید ضرور ہیں اور انہوں نے ہمت نہیں ہاری ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اس عمل کو آگے بڑھائیں گے اور اپوزیشن رہنما سزا سے نہیں بچ سکیں۔ ملک کے وزیر اعظم کو اس طرح کی بات کرنی بھی چاہیے کہ نہیں یہ ایک الگ بحث ہے،نئے مشیر احتساب مصدق عباسی نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں اور ان کے چارج سنبھالنے کے چند روز میں ہی ہمیں ایف آئی اے افسران کے تبادلے کا کیس دیکھنے کو ملا۔ افسران کے تبادلوں کے حکم تو وزیر اعظم نے واپس کروا دیا ہے لیکن یہ چہ مگوئیاں بہرحال شروع ہو گئی ہیں کہ حکومت میں اس حوالے سے کس لیول میں مس کمیونیکیشن ہوئی ہے اور کہنے والے تو کہہ رہے ہیں کہ نئے مشیر احتساب کے آنے کے بعد بھی احتساب کا عمل زیادہ بہتر انداز میں چلتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے اور یہ واقعہ آنے والے دنوں میں اس حوالے سے ایک نمونہ ہے۔
بہرحال اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی ملک کوئی بھی ریاست یا کوئی بھی حکومت احتساب کے بغیر نہیں چل سکتی ہے۔ اگر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہو تو کوئی بھی نظام نہیں چل سکتا ہے اور اند ر ہی اندر سے کھوکھلا ہو تا چلا جا تا ہے لیکن اس حوالے سے اس بات کی اہمیت کلیدی ہے کہ احتساب کا عمل شفاف ہو بلاامتیاز ہو اور بلاتفریق ہو لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا ہو تا نہیں ہے۔ کہیں نہ کہیں اس تمام عمل میں سیاسی آمیزش ہو جاتی ہے اور اس کا تمام فائدہ اپوزیشن کو ہوجاتا ہے۔جہاں تک سوال ہے موجودہ حکومت کے احتسابی عمل کا تو اس حوالے سے کوئی پیشین گوئی تو نہیں کروں گا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ حکومت کے پاس وقت کم رہ گیا ہے اگر آئندہ الیکشن سے قبل اگر اپنے سپورٹرز کو اس حوالے سے کوئی ٹھوس پیشرفت دکھانا چاہتے ہیں تو پھر جو وقت حکومت کے پاس رہ گیا ہے اس میں بلاامتیاز اور اکراس دی بورڈ احتساب کو یقینی بنائے۔ اسی طرح اب اس عمل کی گرتی ساکھ اور ٹوٹتے ہوئے مومینٹم کو بحال کیا جاسکتا ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭