اعجاز الحق
آج ملک میں عام تعطیل ہے اور سرکاری و نجی سطح پر کشمیری عوام سے یکجہتی کے اظہار کی خاطر مختلف تقاریب اور ریلیوں کا اہتمام کیا جارہا ہے، دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کسی اہم فائل میں تو موجود تھا مگر بھارت سے آزادی کا خواب پورا نہیں ہورہا تھا یہ موقع کابل نے فراہم کیا جب کابل کی فضا نے جنرل محمد ضیا الحق شہید کی حکمت عملی کی بدولت روس کو افغانستان سے نکال باہر کیا، روس کی یہ ہزیمت شاید اس کے پیروکاروں کو برداشت نہیں ہوئی اور ایک ایسی چال چلی گئی جس کے نتیجے میں صدر جنرل محمد ضیا الحق شہید کو راستے سے ہٹانے کا مکروہ منصوبہ بنایا گیا، اگر اللہ تعالیٰ انہیں موقع فراہم کرتا تو آج مقبوضہ کشمیر بھی بھارت کے تسلط سے آزاد ہوچکا ہوتا۔ انہوں نے جو پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا وہ اپنی زندگی میں کر گئے اب جب بھی کبھی کشمیر آزاد ہوگا تو صدر جنرل محمد ضیا الحق کا نام بھی تاریخ میں لیا جائے گا، ان کی شہادت کے بعد اگرچہ کشمیری عوام مایوس ہوئے تاہم پوری پاکستانی قومی ان کے ساتھ تھی اور آج بھی ان کے ساتھ ہے قوم کی آواز پر ہی یوم یکجہتی کشمیر منانے کا فیصلہ ہوا تھا اور اس سلسلے میں حکومت سے باہر قاضی حسین احمد کی آواز اٹھی اور یوں 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر بن گیا۔ 1990ء سے یہ دن منایا جاتا ہے جس میں قومی سیاسی جماعتوں سمیت پوری قوم شریک ہو کر غاصب بھارت کو یہ ٹھوس پیغام دیتی ہے کہ کشمیر پر اس کا تسلط بزور قائم نہیں رہ سکتا اور یواین قراردادوں کی روشنی میں استصواب کے ذریعے کشمیری عوام نے بالآخر خود ہی اپنے مستقبل کا تعین کرنا ہے۔
کشمیری عوام غاصب اور ظالم بھارتی فوجوں اور دوسری سکیورٹی فورسز کے جبر وتشدد کو برداشت کرتے‘ ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرتے اور متعصب بھارتی لیڈران کے مکر وفریب کا مقابلہ کرتے ہوئے جس صبر و استقامت کے ساتھ اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے‘ اس کی پوری دنیا میں کوئی مثال موجود نہیں۔ اس خطہ ارضی پر آزادی کی کوئی تحریک نہ اتنی دیر تک چل پائی ہے‘ نہ آزادی کی کسی تحریک میں کشمیری عوام کی طرح لاکھوں شہادتوں کے نذرانے پیش کئے گئے ہیں۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک انسانی تاریخ کی بے مثال تحریک ہے جس کی پاکستان کے ساتھ الحاق کے حوالے سے منزل بھی متعین ہے۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ تقسیم ہند کے ایجنڈے کے تحت مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا تھا جبکہ بانی پاکستان قائداعظم نے کشمیر کی جغرافیائی اہمیت کے تناظر میں اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور جب1948ء میں بھارت نے زبردستی اپنی فوجیں داخل کرکے تسلط جمایا تو قائداعظم نے افواج پاکستان کے اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کو دشمن سے پاکستان کا قبضہ چھڑانے کیلئے کشمیر پر چڑھائی کا حکم بھی دیاگریسی نے اس حکم پر عمل کیا ہوتا تو یہ مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ پھر جب چڑھائی کی گئی تو بھارت کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ میں لے گیا مگر جب یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی الگ الگ قراردادوں کے ذریعے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا اور کشمیر میں استصواب کے اہتمام کا حکم دیا تو بھارت نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ اپنی ریاست کا درجہ دے دیا۔ کشمیریوں نے بھارتی تسلط کبھی قبول نہیں کیا۔ وہ اپنی آزادی کیلئے ہمیشہ سے قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔
جولائی 2016ء میں مظفروانی کو جس طرح تشدد کرکے شہید کیا گیا‘ اسکے بعد کشمیری آزادی کی خاطر نئے جوش اور ولولے سے گھروں سے نکل آئے۔ انکے احتجاج اور مظاہروں نے ریاستی مشینری کو بے بس کر دیا۔ بھارتی افواج کے مظالم میں مزید اضافہ ہوگیا مگر کشمیریوں کا جذبہ ماند نہ پڑا تو بھارت نے وہاں نام نہاد جمہوریت کا خاتمہ کرکے گورنر راج نافذ کردیا۔ یہ بھی بے سود رہا تو صدر راج لگا دیا گیا۔ 5 اگست 2019ء کو مودی سرکار نے شب خون مار کر کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کر دیا۔ اسکے بعد مزید فوج وہاں تعینات کر دی گئی آج بھارتی سفاک سپاہ کی تعداد نو لاکھ ہے۔
کشمیری لگ بھگ ڈیڑھ سال سے بدترین پابندیوں کے حامل کرفیو کا سامنا کررہے ہیں۔ کرونا کے دوران بھی انہیں علاج تک کیلئے ہسپتالوں میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ بیمار ادویات سے محروم‘ بچوں کو دودھ اور خوراک میسر نہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ انسانی المیہ بدترین صورت اختیار کررہا ہے۔ کشمیری اسکے باوجود حق آزادی سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد لاکھوں شدت پسندوں کو کشمیر کے ڈومیسائل جاری کئے گئے ہیں۔ ان کو کشمیر میں ملازمتیں دی جارہی ہیں۔ کسی بھی غیر کشمیری کو کشمیر میں جائیداد خریدنے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ سب کشمیر میں مسلم اکثریتی آبادی کا توازن بگاڑنے کی سازش ہے۔ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں ہونیوالی بھارتی بربریت دنیا کے سامنے رکھنے کی کوشش کی جس عالمی برادری کی طرف سے شدید ردعمل آیا۔ تشویش کا اظہار کیا‘ مذمت کی گئی‘ بھارت کو سختی سے انسانی حقوق سے باز رہنے کو کہا گیا مگر بھارت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اب عالمی برادری کو عملی اقدامات کی طرف آنا ہوگا۔
پاکستان کی طرف سے کشمیر کے پرامن حل کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے مگر کسی کمزوری کا تاثر بھی نہیں دیا جارہا۔ آج کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے قوم کو دنیا پر مزید واضح کرنا ہے کہ بھارت کا کشمیریوں پر ظلم کا ہاتھ روکا جائے اور کشمیریوں کو ان کا حق استصواب دیا جائے جس پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس نے بھی زور دیا ہے۔
(مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اورسابق وفاقی وزیر ہیں)
٭……٭……٭