لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر، سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ گورنر سندھ جسٹس (ر) سعید ا لزماں صدیقی شریف النفس اور بھلے انسان تھے۔ پروردگار ان کے درجات بلند فرمائے۔ گورنر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ہی بیمار تھے۔ وزیراعظم کو ایسے عقلمند مشیروں کا نوٹس لینا چاہیے جو اس حال میں کسی کو گورنر بنانے کا مشورہ دیتے ہیں جو 4دن بھی نہ رہے۔ چینل فائیو کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تاریخ میں جہاں سعید الزماں صدیقی کا نام مثبت انداز میں لیا جائے گا وہیں یہ بات بھی ہو گی کہ انہوں نے اپنے ہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو سرکاری جماعت کے مو¿قف کے مطابق ان کی حمایت کرنے کےلئے فارغ کر دیا تھا۔ سعید الزماں نے کوئٹہ بنچ میں ایک دوسرے جج کے ساتھ ملکر اپنے ہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو فارغ کر دیا تھا۔ تاریخ میں یہ پہلا موقع سامنے آیا تھا کہ سپریم کورٹ کے ججوں میں لڑائی ہوئی، دو حصوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک حصے کی قیادت چیف جسٹس سجاد علی شاہ کر رہے تھے، جن کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ مسلم لیگ ن کے لوگوں نے عدالت پر حملہ کیا تھا۔ چودھری غلام رسول کے صاحبزادے اختر رسول اور میاں محمد منیر دو منتخب ارکان اسمبلی کو حملہ کرنے کے الزام میں سزا ملی تھی، کئی سال کےلئے نااہل کر دیا گیا۔ سعید الزماں صدیقی پر اپوزیشن نے الزام لگایا تھا کہ وہ نوٹوں سے بھرے بریف کیس لیکر کوئٹہ گئے تھے اور پھر اپنے ہی چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف بغاوت کر کے انہیں فارغ کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں وزیراعظم کی جانب سے سکول کے بچوں کےلئے 200 بسوں کا اعلان خوش آئند ہے لیکن ایسا مربوط نظام کیوں نہیں بنایا جاتا کہ چاہے مناسب سا کرایہ لیکر ملک بھر کے تمام سکولوں کےلئے سرکاری بسیں فراہم کی جاتیں اس سے والدین کا بچوں کو سکول چھوڑنے اور لیکر آنے میں وقت ضائع نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو سیاست میں آنے سے پہلے کا جانتا ہوں، انہوں نے ماضی میں تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کی۔ جس کے سربراہ جنرل مارشل (ر) اصغر خان تھے۔ بعد ازاں فوجی حکومت نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا اور انہیں غیرجماعتی وزیراعلیٰ نامزد کیا۔ پھر نواز شریف پہلے ا لیکشن میں کامیاب ہوئے۔ شریف خاندان کے تمام ممبران کو سیاست سے ہٹ کر نیک دل، نرم مزاج اور مہربان انسان پایا ہے۔ نواز شریف کے پہلے اور دوسرے دور میں یہ سلوگن مشہور ہواتھا ”جہاں ظلم وہاں نواز شریف“ حالانکہ یہ روزنامہ خبریں کا سلوگن تھا اور سچ کہتے تھے کہ ہمارا سلوگن بھی حکومت لے گئی۔ نواز شریف ذاتی طور پر ہمدرد اور مظلوموں سے پیار کرنیوالے انسان تھے۔ جب یہ لیڈر آف دی اپوزیشن تھے تو بھی غریبوں کی امداد اور بیرون ملک علاج کےلئے 20, 20 لاکھ روپے عطیہ دیتے دیکھا ہے۔ وزیراعظم سے درخواست ہے کہ انہوں نے وزارت عظمی کے دوسرے دور میں بوڑھے لوگوں کی عزت و حقوق کی بحالی کےلئے ایک ادارہ بنایا تھا جو بہت اچھا کام تھا۔ میں نے اس کے بارے متعدد بار لکھا، مکالہ خصوصی بھی لکھے کہ بوڑھے لوگوں کےلئے دوبارہ وزارت یا مشاورت قائم کریں۔ دوسرا ان کا پرانا پروگرام کہ جہاں ظلم و زیادتی ہو اس کی سلامتی کےلئے پہنچیں اگر خود نہیں بھی جا سکتے تو خاندان کا کوئی فرد چلا جائے اور تیسرا یہ کہ نابینا اور معذور افراد کےلئے خصوصی سکیموں کا اعلان کریں۔ یہ کوئی الگ ایشو نہیں کہ سکول کے بچوں کےلئے 200 بسوں کا انتظام کیا۔ ملک بھر میں تمام سکولوں کےلئے سرکاری سطح پر ٹرانسپورٹ مہیا کرنی چاہیے۔ کتنے سرکاری ملازم ایسے ہیں جو سرکاری گاڑیوں اور پٹرول پر اپنے بچوں کو سکول پک اینڈ ڈراپ کرتے ہیں۔ جس کا کوئی اپنا سرکاری ملازم نہیں وہ کیسے سکول آتا جاتا ہے کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ تمام سکولوں کےلئے سرکاری ٹرانسپورٹ ہو تو تعلیمی اداروں کے باہر ٹریفک کا نظام بھی مفلوج نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا کٹاس جانا اور وہاں خطاب کرنا خوش آئند ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ وہ کٹاس کے قلعہ کی مرمت کا کام بھی شروع کرانے کا اعلان کر دیں کیونکہ ہندو برادری کےلئے یہ جگہ بہت متبرک ہے۔ اس قلعہ کی مرمت کے اعلان سے اقوام عالم کو یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان اپنی اقلیتوں کا بہت احترام کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کٹاس کا چشمہ کئی بار دیکھا، جو اب گہری جھیل میں بدل چکا ہے۔ اس کے اردگرد کٹاس کا قلعہ ہے جو انتہائی خستہ حال ہو چکا ہے۔ سیڑھیوں سے اوپر پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔ کٹاس چشمہ جو اب جھیل بن چکا ہے، اس سے پائپ نکال کر چواسیدن شاہ سمیت دوسرے قریبی شہروں تک پانی لے جایا جاتا ہے۔ قدرت کا کرشمہ ہے کہ جتنا بھی پانی نکال لو ختم نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے جھنڈے میں سبز رنگ مسلمانوں جبکہ سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس سے پہلے مسلم لیگ کا جھنڈا سارا سبز ہوتا تھا، قیام پاکستان کے وقت سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کےلئے شامل کیا گیا۔ آج پاکستان میں سب سے بڑی اقلیت مسیحی برادری ہے جبکہ ہندو بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ پنجاب میں کم ہیں لیکن سندھ میں بہت زیادہ ہیں۔ سندھ کے ہندوﺅں نے کبھی سٹیٹ کےلئے مشکلات پیدا کرنے کے بجائے الٹا انہیں انتظامیہ سے شکایات رہیں۔ ان کی کچھ آبادی تو مایوس ہو کر واپس ہندوستان چلے گئے۔ جب متحدہ ہندوستان میں سے پاکستان اور بھارت بنے تھے تو نقل مکانی کی بات ہرگز طے نہیں ہوئی تھی، خود قائداعظم اور نہرو جیسے لوگ پریشان تھے کہ نقل مکانی کیسے شروع ہوگئی؟ پاکستان کی آبادی سے زیادہ مسلمان ہندوستان میں ہیں۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت میںا گر اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت نہیں کی جاتی تو معاملہ خانہ جنگی کی طرف بڑھے گا۔ جس طرح بھارت میں ہو رہا ہے۔ ہمیں اپنی اقلیتوں کے مسائل پر پوری توجہ دینی چاہیے۔ دو قومی نظریے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ایک دوسرے کا گلہ پکڑ لو بلکہ یہ تھا کہ ہر مذہب کا انسان چاہے وہ پاکستان میں ہو یا بھارت میں، صلح و صفائی اور امن کے ساتھ رہ سکے۔ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے سیسل چودھری پاک فضائیہ سے معروف ہوئے۔ انہوں نے پاک بھارت تینوں جنگوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اقلیتی برادری کی ایسی اور بہت سی مثالیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ اسلامی فوج کا تصور سعودی عرب کا نہیں بلکہ مہاسیر محمد جو ملائشیا کے مقبول ترین حکمران رہے ہیں ان کا دیا ہوا ہے۔ انہوں نے مسلم ممالک کو مشترکہ فوج بنانے کی تجویز دی تھی۔ بدقسمتی سے یہ جو فوج بننے جا رہی ہے اس کے خلاف بڑی شدت سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ یہ ایک سنی ممالک کی شیعہ ممالک کے خلاف فوج بننے جا رہی ہے کیونکہ اس میں ایران، عراق، لبنان اور شام شامل نہیں۔ ایرانی حکومت نے سرکاری بیان شاید نہ دیا ہو لیکن وہاں اور پاکستان میں بسنے والے اہل تشیعہ سوشل میڈیا پر اس کی انتہائی مخالفت کر رہے ہیں کہ سعودی عرب کے تعاون سے یہ فوج بن رہی ہے۔ جنرل(ر) راحیل شریف اگر یہ فوج بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو سلیوٹ کرنا چاہیے۔ راحیل شریف کے سعودی عرب جانے، اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج کی سربراہی، سعودیہ سے واپس آنے کی خبر سب سے پہلے روزنامہ خبریں اور چینل فائیو نے دی۔ انہوں نے کہا کہ وزیردفاع خواجہ آصف نے یہ بیان دیکر ساری بحث ختم کر دی کہ سابق آرمی چیف کو حکومتی مشورے کے بعد اجازت دی گئی ہے۔ اب یہ منصوبہ فائنل ہو چکا ہے جس کے بعد اعلان کرتا ہوں۔ سینٹ میں اکثریت پیپلز پارٹی کی ہے، بیگم نصرت بھٹو، ان کی بہن سمیت اکثریت کا تعلق براہِ راست ایران سے ہے، اس لئے پی پی میں شیعہ سیکٹر بہت مضبوط ہے۔ رضا ربانی نے کہا کہ بتایا جائے کہ حکومت نے سابق آرمی چیف کو کیسے اجازت دی کہ وہ اسلامی اور مشترکہ فوج کے سربراہ بنیں؟ جبکہ اس میں اہل تشیعہ لوگوں کی اکثریت والے ممالک شامل نہیں۔ راحیل شریف 9جنوری کو وطن واپس آ چکے ہیں۔ 3 سابق فوجی افسروں نے مختلف بیان دئیے۔ جنرل(ر) شعیب نے کہا کہ راحیل شریف نے سعودیہ سے 3مطالبات کیے تھے۔ ایک کہ ایران کو ا سلامی امہ کی فوج میں شامل کیا جائے۔ دوسرا کہ وہ متضاد جنگ میں حصہ نہیں لیں گے ان کا اشارہ سعودی عرب اور یمن کی لڑائی کی طرف تھا۔ اگلے روز ایک اور جنرل(ر) اعجاز اعوان نے عجیب و غریب بات کر دی جس کی تصدیق خواجہ آصف کر چکے ہیں کہ حکومت پاکستان راحیل شریف کو اجازت دے چکی ہے، وزیراعظم کے مشورے سے منصوبہ فائنل ہو چکا ہے۔ اس کے بعد میرے ہی ساتھ ایک ٹی وی پروگرام میں اعجاز اعوان نے کہا کہ ابھی فائنل فیصلہ نہیں ہوا۔ راحیل شریف وزیراعظم سے ملاقات کرینگے اگر فائنل فیصلہ ہو گیا تو پھر کمانڈ سنبھالیں گے۔ راحیل شریف کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ ایک ایسا شخص ہے جو اپنی زبان نہیں کھولے گا۔ انہوں نے واقعی زبان نہیں کھولی شاید کوئی مصلحت ہو۔ لیکن اب سب سے زیادہ ذمہ داری راحیل شریف پر ہے کہ وہ معاہدے کے بارے میں وضاحت کریں اور تضادات دور کریں۔ ایک جنرل نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے راحیل شریف سے منوا لیا ہے کہ قیادت کمان اپنی جگہ، متحارب مسلم ممالک میں ثالثی کے فرائض انجام دینگے۔ راحیل شریف کو چاہیے کہ وہ سینٹ، اسمبلی، حکومت، ایجنسیاں، سیاسی جماعتیں اور ریٹائرڈ جنرلز کے بیانات کی تصدیق یا تردید کرتے ہوئے حقائق سامنے لائیں۔ 2لائنوں کا ٹویٹ ہی کر دیں تاکہ یہ تضادات ختم ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر چار ممالک شامل نہیں بھی ہوتے تو باقی مسلم ممالک کی مشترکہ آرمی بن جانی چاہیے۔ اس نعرے کے ساتھ کہ دہشتگردی کے خلاف ہیں۔ اتنے مسلم ممالک کا اکٹھے ہو جانا کوئی چھوٹی بات نہیں، بعد میں دوسرے ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں یا ہو سکتا ہے کہ کم سے کم وہ مخالفت نہ کریں۔ راحیل شریف کو اپنے لب کھولتے ہوئے اس موقع کو استعمال کرنا چاہیے۔ دہشتگردی کے خاتمے کے بہانے ہی سہی اسلامی مشترکہ آرمی بننی چاہیے۔ لیکن اسے یمن یا شام میں استعمال کرنے کا خواب بھی نہ دیکھیں۔ ایران سمیت دوسرے اہل تشیعہ آبادی والے ممالک بعد میں شامل ہو سکتے ہیں، اسے ضرور بننا چاہیے ابھی نامکمل بھی ہے تو آگے چل کر مکمل ہو جائے گی۔