قارئین کرام! ہم نے دو قسطیں کشمیری حریت پسند رہنما سید علی گیلانی کے حوالے سے ”کچھ یادیں اور ملاقاتیں“ میں تحریر کی ہیں۔ تاہم ”خبریں“ کے مستقل کالم نگارجناب صغیر قمر نے سید علی گیلانی کے بارے میں اپنے ایک مضمون(1997ئ) میں بعض دلچسپ واقعات تحریرکئے تھے۔ ہم اس مضمون کو انہی کے حوالے سے دوبارہ پیش کررہے ہیں۔ صغیرقمر لکھتے ہیں:
ولرجھیل کے شمال مغرب میں وٹلب اور بابا شکور دین کے مزار کے قریب زوری منس نامی ایک خوب صورت گاﺅں ہے۔ سیاہ زیرے اور سنہری سیبوں سے مہکتا ہوا اور اخروٹ و آلو بخارے کے باغوں سے لدا پھندا گاﺅں ہر روز ولر کے نیلے پانیوں میں اپنا عکس دیکھتا ہے۔سید علی گیلانی ستمبر ۱۹۲۹ءکو اسی گاﺅں میںپیدا ہوئے۔کون کہہ سکتا تھا کہ نہر زینہ گیرکی کھدائی کرنے والے مزدور سید پیر شاہ کا یہ بیٹا ایک دن پورے کشمیر کے مسلمانوں کے دلوں کا حکمران ہوگا اور قائد تحریک حریت کہلائے گا ۔ وہ منا سا بچہ جو چھ برس کی عمر میں گردو نواح کی پہاڑیوں سے زیرہ جمع کر کے بازار میں فروخت کیاکرتا تھا اور جو ایک دن زیرے کی گٹھڑی سمیت نہر میں گر پڑا تھا اور اس کو بمشکل ڈوبنے سے بچایاگیا تھا ۔کس کو خبر تھی کہ سید علی ہمدانی ؒ کی میراث کا وارث بننا اس کے مقدر میں لکھا ہے۔
پرائمری تعلیم گاﺅں سے تین کلومیٹر دور بوٹنگو نامی بستی میں حاصل کی ۔ فطری ذہانت اور محنت کی کی وجہ سے وظیفہ حاصل کیا اور سوپور ہائی سکول میں داخلے کے مستحق ٹھہرے ‘ تعلیم کا ش¶ق تھا اس لیے چھوٹی سی عمر میں روزانہ چودہ کلومیٹر دور سوپورجاتے اور گھر لوٹتے تھے۔ پانچ برس کے اس مسلسل ریاض کے بعد انہوںنے میٹرک کا امتحان امتیازی شان سے پاس کیا ۔ یہ وہ دورتھا جب بر صغیر میں آزادی کی تحریک زوروں پر تھی ۔ نوجوان علی گیلانی کے دل میں بھی غلامی کے احساس کے تلخ کانٹے چبھ رہے تھے۔ ولر جھیل کے کنول اور وادی زینہ گیر کے گلاب ان سے ہم کلام تھے اور دوران تعلیم اقبال ؒکا مطالعہ انہیں آزادی کا درس دے چکا تھا۔ اقبال ؒ کے کلام کی گہری چھاپ آج بھی ان کی تقریروں اور تحریروں سے نمایاں ہے۔ حصول علم کے لیے وہ لاہور گئے ۔ لیکن گھریلو مجبوریوں نے کچھ عرصے کے بعد تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیا۔ اپنے کیئرئر کا آغاز انہوں نے شیخ عبداﷲ کے دست راست مولانا مسعودی کی نگرانی میں اخبار ”خدمت “ میں کام سے کیا۔
بر صغیر کی تقسیم کے بعد کشمیر پر بھارت کا تسلط قائم ہو گیا تو گیلانی صاحب پر اس سانحے کا گہرا اثر ہوا ۔ غلامی کے خلاف شدید رد عمل ایک ذاتی تجربے سے ہوا ۔ ایک دن جب وہ سوپورہائی سکول جا رہے تھے۔ راستے میں بھارتی فوج کے ایک دستے نے انہیں روک لیا ۔” کہاں جا رہے ہو اور کیوں جا رہے ہو ؟“ سید گیلانی نے پوری جرات سے کہا ” میں یہاں کا باشندہ ہوں تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے ؟“
قابض فوجیوںنے نوجوان گیلانی کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ غلامی کی اولین تعزیر تھی جو نقش برسنگ ان کے قلب و دماغ پر نقش ہو گئی ۔اس روز پہلی بار انہیںیہ احساس ہوا کہ شیخ عبداﷲ نے جن ” نجات دہندوں“ کو کشمیر آنے کی دعوت دی ہے ‘وہ ان کے ابنائے وطن سے آزادی چھین چکے ہیں ار اب ایمان و ضمیر کے درپے ہیں ۔ ۱۹۴۹ءمیں پہلی بار انہوں نے سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کے لٹریچر سے شناسائی حاصل کی ۔ فکر اقبال کے بعدسید مودودی ؒ نے انہیں اسلام کی خاطر جینے اور مرنے کا درس دیا اور وہ آزادی اور اسلام کی خاطر اپنی زندگی وقف کرنے کے لیے یکسو ہوتے چلے گئے ۔ پھر مولانا سعد الدین سے ان کی ملاقات ہوئی اور وہ ایک نئے انقلاب سے شناسا ہو ئے۔ کتاب کے بعد فیضان نظر کے قتیل ہوئے ۔ مولانا سعد الدین نے جواں سال علی گیلانی کو اس قافلہ عشاق میں شامل کر لیا جسے ” جماعت اسلامی “ کہتے ہیں ۔ اس وقت سید علی گیلانی بیس برس کے تھے۔
اسی زمانے میں جناب گیلانی نے محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کی ۔ اپنے دل کی روشنی اپنے طلبہ کو منتقل کرنے لگے بہت سے لوگوں کے لیے ان کی تعلیم و تبلیغ نا پسندیدہ رکاوٹیں کھڑکی جانے لگیں ‘ مگر یہ وہ نشہ نہ تھا جسے ترشی اتار دیتی ۔ اس وقت کے حکمران بخشی غلام محمد تک آپ کی شہرت پہنچی ۔ اس نے آپ کو پیغام بھیجا ۔ وہ آپ سے راہ و رسم بڑھانا چاہتا تھا۔ آپ نے قاصد کو غیر مبہم الفاظ میں کہہ دیا۔
” بخشی صاحب جس شخص کو خریدنا چاہتے ہیں ‘ اس نے تو پہلے ہی جنت کے بدلے میں اپنی جان و مال کا اﷲ تعالیٰ سے سودا کر لیا ہے ۔ اب میرے پاس وہ جنس میری نہیں رہی ‘ جسے بخشی صاحب خریدنا چاہتے ہیں ۔“
۲۸ اگست ۱۹۶۲ءکو پہلی گرفتاری کا مرحلہ پیش آیا ۔ حکومت وقت خریدنے کی کوشش میں ناکام ہونے کے بعد علی گیلانی کو جھکانا چاہتی تھی ۔خود بتاتے ہیں کہ ڈی ایس پی کے اس اعلان کے بعد کہ آپ کو گرفتار کیا جا رہا ہے ‘ فطری طور پر دل کی دھڑکن تیز ہو گئی ۔ لیکن یہ کیفیت لمحاتی تھی یہ تو زندان و سلاسل کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز تھا۔ جیل میں آپ کو حکیم غلام نبی فاضل دیو بند کی ہمراہی کا موقع مل گیا۔ انہوںنے اس مرد خدا کی موجودگی کو اپنے حق میں نعمت اور باعث خیر سمجھا۔ ان سے عربی کی تعلیم شروع کی۔ تیرہ ماہ میں آپ نے ندوة العلماءمیں رائج عربی کا پورا کورس مکمل کر لیا ۔ ایک نظر بند کی طالب علمی کے دور کی تشنگی دور ہونے کا یہ بہترین موقع تھا۔
نظر بندی کے دوران جیل حکام سے ان بن بھی ہوتی رہی ۔ سخت گیر حاکموں نے جبر کے تمام حربے آزمائے ‘ مگر انہوںنے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔ ایک قائد کی تربیت کے لیے جیل سے اچھی اور جگہ کیا ہو سکتی ہے۔اسی دوران آپ کو ایک زبردست حادثہ پیش آیا ۔ آپ کے عزیز ترین اور شفیق والد دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ۔ اس جانکاہ سانحے کی خبر سن کر آپ کے دل کی کیا حالت ہوئی ‘ اس کا اظہار انہوں نے ” والد مرحوم کی یاد میں “ کے عنوان سے ایک مضمون میں کیا ہے جو اقبال ؒ کی نظم ” والدہ مرحومہ کی یاد میں “ کا عکس لیے ہوئے ہے ۔ بعد میں آپ کو بتایا گیا کہ آپ کے والد اکثر و بیشتر آپ کی یاد میں آنسو بہاتے رہتے تھے۔ کھڑکی میں بیٹھ کر سڑک پر نگاہیں جمائے رکھتے اور کسی کوسیاہ قراقلی پہنے آتا دیکھتے توسید علی گیلانی کی آمد کا گمان ہو جاتا اور بے چین ہو کر کھڑے ہو جاتے تھے ۔ آخر یہی گھاﺅ دل میں لیے اس دنیا سے چلے گئے اور دوسری جانب بھی یہی زخم چھوڑ گئے۔سید گیلانی نے والد مرحوم کا تذکرہ آبدیدہ ہو کر یوں کہا۔
” میری زندگی پر سب سے زیادہ اثر والد محترم نے ڈالا ہے ۔ علم کے لیے ان کی تڑپ ‘ محنت کشی اور دیانت و امانت ان کی زندگی کی نمایاں خصوصیات تھیں ۔ زندگی کے کسی موڑ پر ان کی یہ خوبیاں میری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوتیں۔“
اسیری سے رہائی ملی تو جماعت اسلامی کی شوریٰ نے آپ کو قیم جماعت ( سیکرٹری جنرل ) بنادیا۔ گویا ” اس کو چھٹی نہ ملے جس نے سبق یاد کیا۔“ کے مصداق آپ کی آزمائشیں بڑھتی اور پھیلتی گئیں ۔ وہ کشمیرکو زندہ و بیدار ‘ سر بلند اور آزاد دیکھنے کی اپنی آرزو ایک ایک انسان کے سینے میں منتقل کرتے چلے گئے۔ ۱۹۶۵ءمیں ایک بار پھر آپ کو گرفتار کر لیاگیا ۔اس مرتبہ بائیس ماہ تک جیل کو آباد رکھا ۔ اس عرصے میں آپ نے بے پناہ مطالعہ کیا اور قرآن و حدیث کے علاوہ علم و ادب کی بے شمار کتابیں پڑھیں ۔ جیل سے باہر آئے تو ہفت روزہ ” اذان “ کے مدیر بنا دیے گئے ۔ آپ نے اپنی موثر تحریروں سے ثابت کیا کہ اس راہ کے بھی آپ شاہسوار ہیں ۔
(جاری ہے)