لاہور(خصوصی رپورٹ) پاکستان 69 سال گزر جانے کے باوجود خواجہ سراﺅں کو ایک الگ پہچان اور برابری کے حقوق کے لئے کوئی قانون سازی نہ کر سکا، سرکاری نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں کوٹا سسٹم نہ ہونے کے باعث خواجہ سراءمعاشی تنگدستی کا شکار ہو کر جسم فروشی کی طرف راغب ، امریکہ خواجہ سراں کو بنیادی انسانی حقوق دینے میں پہلے نمبر پر ، جرمنی ،نیوزی لینڈ اورآسٹریلیا میں آئینی طور پر خواجہ سراﺅں کے حقوق تسلیم کر لئے گئے جبکہ ارجنٹائن ،مالٹا ،ڈنمارک ،کولمیبا،آئرلینڈ اور ویت نام میں بھی آئینی طور پر خواجہ سراﺅں کے حقوق کے لئے کام جاری ہے۔ کوئی خواجہ سرا شوق سے جسم فروشی یا بھیک نہیں مانگتا ،ہمیں حکومت نوکریاں دے تو ہم بھی ایک باعزت زندگی گزار سکتے ہیں ،خواجہ سراءعلیشا، فردوس قریشی،ریشما اور ریما کی گفتگو۔ تفصیلات کے مطابق مرد اور عورت کے بعد اللہ تعالی کی جانب سے ایک تیسری جنس بھی اس دنیا میں موجود ہے جس کو عرف عام میں خواجہ سرا کہا جا تا ہے ،خواجہ سرا کا نام جہاں بھی لیا جاتا ہے توذہن میں قدرتی طور پر ایک ایسی مخلوق کا خاکہ ظاہر ہوتا ہے جس کا کام ناچ گانا اور مردوں کو انٹرٹین کرنا ہے بہت سے ممالک جن میں جرمنی ،نیوزی لینڈ اورآسٹریلیا میں آئینی طور پر خواجہ سراں کو حقوق دیئے گئے ہیں جبکہ ارجنٹائن ،مالٹا ،ڈنمارک ،کولمیبا،آئرلینڈ اور ویت نام میں بھی آئینی طور پر خواجہ سراﺅں کے حقوق کے لئے کام جاری ہے۔اس کے علاوہ اور بھی بہت سے ممالک آہستہ آہستہ خواجہ سراﺅں کو حقوق دینے کے متعلق کام کر رہے ہیں ،پاکستا ن میں خواجہ سراﺅں سے زیادتی اور تشدد کی شکایات دنیا کے سب ممالک سے زیادہ ہیں ۔امریکہ دنیا میں واحد ملک ہے جس میں خواجہ سراﺅں کے سب سے زیادہ حقوق حاصل ہیں ،امریکہ میں خواجہ سراﺅں کے لئے علیحدہ واش رومز بنائے گئے ہیں جنہیں (آل گینڈر) کا نام دیا گیا ہے۔یہ اس لئے کیا گیا کہ خواجہ سراﺅں کو واش روم استعمال کرنے میں کوئی مشکل نہ ہو ۔کیونکہ اکثر دیکھا گیا کہ واش روم وہ واحد جگہ جہاں خواجہ سراﺅں کو گالیاں دی جاتی ہیں ،لیکن ایشیائی ممالک جن میں پاکستان اور انڈیا قابل ذکر ہیں آج بھی خواجہ سراﺅں کو انتہائی حقارت اور گندی نظروں سے دیکھا جاتا ہے جن کے ساتھ گندی اور فحش باتیں کرنے کے علاوہ گالی دینا لوگ اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں اس پاکستانی معاشرہ میں خواجہ سراﺅں کو اپنی پہچان کروانے اور اس کو برقرار رکھنے کے لئے بہت مشکلات کا سامنا ہے ،پاکستان اور انڈیا کی سوسائٹیاں آج بھی خواجہ سراں کی موجودگی کو برداشت نہ کر پائی ہے اور ان کے ساتھ انتہائی برے طریقے سے پیش آیا جاتا ہے اس معاملے میں انڈیا ایک قدم آگے نکل گیا اور اس نے 2012ءمیں خواجہ سراﺅں کو تیسری جنس کا درجہ دے دیا ہے، جس کے مطابق اب ان خواجہ سراﺅں کے حقوق بھی دوسروں کے برابر ہوں گے ،ان کو تمام قانونی تحفظ کے علاوہ ووٹ دینے کا حق بھی حاصل ہے لیکن پاکستان میں تاحال خواجہ سراﺅں کے لئے کوئی مربوط قانون سازی نہ کی گئی ہے اور آج بھی خواجہ سراﺅں سے برطانوی دور کے قانون مجریہ 1860کے مطابق ٹریٹ کیا جاتاہے جس کو آج قیام پاکستان کے بعد پاکستان پینل کوڈ کا نام دیا جاتا ہے لیکن اس قانون میں خواجہ سراﺅں کے حقوق کے متعلق کوئی تبدیلی نہ کی گئی ہے خواجہ سراﺅں کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر درخواست کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر 2009میں حکومت کو شناختی کارڈ میں خواجہ سراﺅں کی تیسری جنس درج کرنے کے احکامات دیئے گئے ہیں اس کے علاوہ پاکستان میں اس حوالے کوئی قانون سازی نہ کی گئی ہے۔دوران سروے خواجہ سرا فردوس قریشی کا کہنا ہے کہ خواجہ سرا ہونے کے ناطے پیدائش سے لے کر آج تک ہماری زندگی انتہائی مشکل ہے،جب میں 7سات سال کی تھی میرے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے اور اس وقت سے آج تک لاتعداد لوگ اپنی جنسی ضروریات پورا کر چکے ہیں ،میں ایک بیٹے کو بھی لے پالک کے طور پر ایک ماں بن کر پال رہی ہوں لیکن مجھے ڈر ہے کہ میرا بیٹا جوان ہو جائے گا اور اسے یہ معلوم ہوگا کہ میں ایک خواجہ سرا ہوں تو میرا پتہ نہیں کہ اس بڑھاپے میں میرے ساتھ کیا ہو گا۔ فردوس کی خواہش ہے کہ جو غریبی اور احساس محرومی اس نے اپنی زندگی میں دیکھا ہے وہ اپنے لے پالک بیٹے کو اعلی تعلیم دلوا کر اس غریبی اور احساس محرومی سے نکالے گی۔ خواجہ سرا چنبیلی رانا، علیشا، ریشما اور ریما کا کا کہنا تھا کہ خواجہ سراﺅں کو پیدائش سے انتہائی حقارت سے دیکھا جاتا ہے، سوسائٹی میں کسی جانور جیسا سلوک کیا جا تا ہے ہمیں ایک کھلونے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس سے جب چاہا دل بہلا لیا اور جب چاہا چھوڑ دیا ،اس وقت لمحہ فکریہ یہ ہے ،خواجہ سراﺅں کا مزید کہنا تھا کہ پہلے لوگ ہم نجی پارٹیوں اور فنگشنز پر بلا لیتے تھے جس سے ہمارا روزگار چلتا رہتا تھا لیکن اب لوگوں کا رجحان ٹی وی ،ریڈیو اور فوک گلوکاروں کو بلا لیا جاتاہے جس کے باعث ہم پر معاشی طور پر عرصہ حیات تنگ ہو چکا ہے ،اس لئے ہم نے اب سڑکوں پر نکل کر بھیک مانگنا شروع کر دی ہے ،یہ بھی ہم کوئی شوق سے نہ کرتے ہیں صرف مجبوری اور اپنا پیٹ پالنے کے لئے ، حکومتی ملازمتوں میں ہمارے لئے کوئی کوٹہ نہ ہے اور نہ کوئی شخص ہمیں ملازمت دینے کو تیار ہوتا ہے ،اپنی زندگی کو چلانے کے لئے ہمارے پاس صرف جسم فروشی کا راستہ رہ جاتا ہے ہم یہ کام کوئی شوق سے نہ کرتے ہیں ہمیں بھی اندازہ ہے کہ اس قبیح فعل سے معاشرے میں گناہ کے علاوہ بہت سے مہلک بیماریاں بھی پھیلتی ہیں، اگر تعلیمی اداروں میں کوٹہ کے علاوہ ہمیں نوکریاں دی جائیں تو ہم یہ کام کیوں کریں گے ،ہم صرف معاشی اور پیٹ کی بھوک کی وجہ سے ناجائز کاموں کی طرف جاتے ہیں ،پاکستان کے نصاب میں خواجہ سراﺅں کے حقوق کے متعلق آج تک نہیں لکھا گیا جس کی وجہ سے سب ہمیں حقارت سے دیکھتے ہیں۔