لاہور(خصوصی رپورٹ) میوہسپتال میں سامنے آنے والے دل کی انجیو پلاسٹی میں استعمال ہونے والے ان رجسٹرڈ سٹنٹس کی تحقیقات کا دائرہ کارایف آئی اے نے وسیع کردیا ہے اور انکوائری میں پرائیویٹ اور سرکاری ہسپتالوں کو سٹنٹ فراہم کرنے والی تمام کمپنیوں اور ہسپتالوں تک وسیع کردیا ہے ۔ابتدائی تحقیقات میں سٹنٹس کی خریدوفروخت کے حوالے سے اہم انکشافات سامنے آئے ہیں ۔ایف آئی اے نے ابتدائی طور پرہسپتالوں کو سٹنٹ فراہم کرنے والی 4کمپنیوں کے خلاف شکنجہ تیار کرلیا ہے۔ ان کمپنیوں کے حوالے سے ایف آئی اے نے کسٹم حکام سے ان کا خریداری ریکارڈ حاصل کرلیا ہے ۔اس ریکارڈ کے مطابق کمپنیاں بیرون ممالک سے فی کلو کے حساب سے تول کر سٹنٹ منگواتی رہیں جس کے مطابق ایک سٹنٹ کی قیمت 5ہزار 700روپے ہے جبکہ یہ سٹنٹ ڈاکٹروں کی ملی بھگت سے مریض کو ایک لاکھ 80ہزار سے لے کر 2 لاکھ 80ہزار روپے تک فروخت کرتی رہیں۔ ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم نے ان رجسٹرڈ سٹنٹ فروخت کرنے والی 4 کمپنیوں پاک پنجاب کارڈکس، اے ایم ٹیکنالوجی، سیونگ لائیو ٹیکنالوجی اور بوسٹن سائنٹیفک ٹیکنالوجی(جو کہ ایک بااثروفاقی وزیر) کے برادر نسبتی کی ملکیت ہے، سے 250 سٹنٹ قبضے میں لئے ،یہ سٹنٹ تمام کے تمام پاکستان میں رجسٹرڈ پائے گئے اور ان کا کل وزن جو کسٹم حکام کے ریکارڈ کے مطابق تھا وہ ساڑھے 3کلو تھا اور یہ سٹنٹ 2لاکھ 50ہزار میں منگوائے گئے جبکہ مریضوں کو 6 کروڑ روپے میں فروخت کئے گئے جس میں امراض کلب کے ڈاکٹروں نے بھی اپنا حصہ وصول کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے نے ان کمپنیوں کا غیر قانونی دھندہ پکڑ کر اس کا کیس ابتدائی تحقیقات کے لئے صوبائی ڈرگ کوالٹی کنٹرول بورڈ کے حوالے کردیا ہے۔ ایف آئی اے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان چار کمپنیوں کے خلاف مقدمات آئندہ چند روز میں درج کرلئے جائیں گے، تاہم اس کا دائرہ کار پورے ملک تک وسیع کردیا گیا ہے ،ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کل 32کمپنیاں سٹنٹ فراہم کرتی ہیں جن کے سٹنٹوں کی خریداری کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے،ئاس سلسلے میں تمام کارڈکس سنٹروں میں سٹنٹوں کی خریداری کا ریکارڈ حاصل کیا جا رہا ہے۔ ایف آئی اے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ لاہور کے ایک بڑے کارڈیکس سنٹر میں بھی غیر رجسٹرڈ سٹنٹس کا دھندہ ہورہا ہے جس کو پکڑنے کے لئے گزشتہ روز چھاپہ مار ا جانا تھا مگر بروقت اطلاع پر اس سنٹر کے سربراہ نے500 سے زائد سٹنٹ جو ان کے ریکارڈ میں موجود تھے۔ انہوں نے چھاپے کی اطلاع ملنے پر سٹاک سے غائب کردیئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 8بڑے امراض قلب کے ڈاکٹرز جن میں اکثریت پروفیسرز کی ہے جو اس دھندہ میں ملوث ہیں جو کمپنیوں سے مل کر مریضوں کو لوٹ رہے ہیں، 5ہزار 700روپے والا سٹنٹ کمپنیاں ان ڈاکٹروں سے مل کر ایک لاکھ80ہزار سے 2لاکھ 80ہزار میں فروخت کرتی رہی ہیں ان تمام کو تحقیقات میں شامل کیا جائے گا، ابتدائی طور پر تحقیقات کا دائرہ کار پنجاب کے کارڈیکس سنٹروں تک محدود کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ڈائریکٹر ایف آئی اے ڈاکٹر عثمان کا کہنا ہے کہ تحقیقات میرٹ پر کی جارہی ہیں کسی کے ساتھ رعایت نہیں برتی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ مریضوں کو دھوکہ دہی سے غیر رجسٹرڈ سٹنٹ ڈالنے والے اور انہیں فراہم کرنے والی کمپنیوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے گی۔لاہور(خصوصی رپورٹ) خیبرپختونخوا کے مقابلے میں محکمہ صحت پنجا ب کی جانب سے ہیپاٹائٹس کی دوا کروڑوں روپے مہنگی خریدنے کا انکشاف ہوا ہے۔ تفصیلات کے مطابق گیٹزفارماسے کے پی کے میں سوفیگٹ نامی ٹیبلٹ اڑتالیس روپے اٹھاسی پیسے میں سپلائی کی جب کہ پنجاب نے گیٹزفارماسیے ہی دواپچپن روپے میں خریدتی ہے۔ محکمہ پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ پنجاب نے پچاسی کروڑ جب کہ خیبرپخونخوا حکومت نے صرف چھ کروڑروپے کی دواخریدی لیکن پھربھی پنجاب کے مقابلے میں سستی ہے۔ پنجاب میں ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کے تحت محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ نے ادویات کی خریداری کاعمل مکمل کرلیا ہے۔اس خریداری کے بعدانکشاف ہواہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کے مقابلے میں پنجاب میں ہیپاٹائٹس کی دوا مہنگے داموں خریدی گئی۔ گیٹز فارما نامی دوا ساز اداریکی جانب سے تیارکی گئی ٹیبلٹ سوفیگٹ خیبر پختونخوا حکومت نے اڑتالیس روپے اٹھاسی پیسے فی گولی کے ریٹ پر خریدی ہے تاہم محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ پنجاب نے گیٹز فارما کی ٹیبلٹ سوفیگٹ پچپن روپپے پینتیس پیسے کے ریٹ پرخریدی ہے ذرائع کے مطابق اپریل2016 ءمیں پنجاب میں ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کے تحت پہلی مرتبہ ٹیبلٹس کی خریداری کی گئی تھی اور یہی ٹیبلٹ سوفیگٹ اپریل2016 میں پنجاب حکومت نے پچاس روپے میں خریدی تھی تاہم اس مرتبہ یہی دوامزیدمہنگی خرید لی گئی ہے۔فارماسوٹیکل ذرائع کے مطابق محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ میں مبینہ طورپر کمیشن زیادہ ہونے کی وجہ سے ہیپاٹائٹس کی ادویات کی مہنگے داموں خریداری کی گئی ہے۔لاہور (خصوصی رپورٹ) ایف آئی اے نے میوہسپتال کے آپریشن تھیٹر کے باہر غیر قانونی طور پر جعلی اور مہنگے سٹنٹ فروخت کرنے کی تحقیقات شروع کر دی ہے۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے چودھری اعجاز نے اس حوالے سے ہسپتال انتظامیہ سے ریکارڈ مانگ لیا ہے۔ ایف آئی اے تحقیقات کرے گی کہ مریضوں کو کس کمپنی کے سٹنٹ ڈالے جاتے ہیں ،کیا وہ معیاری ہیں۔ ایف آئی اے نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے بھی رابطہ کر لیا ہے کہ جو کمپنیاں ہسپتال کو سٹنٹ مہیا کر رہی ہیں کیا وہ رجسٹرڈ ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کو ایک شہری نے درخواست دی کہ میوہسپتال میں دل کے آپریشن کے دوران سٹنٹ کی قیمت 1لاکھ 80 ہزار روپے وصول کی گئی جبکہ مارکیٹ میں ایسے سٹنٹ کی قیمت 40 ہزار روپے ہے اور جو سٹنٹ ڈالا گیا اس کی ڈبی پر قیمت بھی درج نہیں ہے۔کمپنیاں آپریشن تھیٹر کے باہر غیر قانونی طور پر کام کرتی ہیں اور اس طرح شہریوں سے فراڈ کیا جاتا ہے۔ ایف آئی اے نے میو ہسپتال کے بعض ملازمین کو بیان ریکارڈ کرانے کے لئے طلب کر لیا ہے۔ دل کے سٹنٹ فروخت کرنے والی کمپنیوں کو بھی طلب کیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق میوہسپتال میں دل کے مریضوں کو جعلی سٹنٹ فروخت کرنے والا گروہ اس وقت منظر عام پر آیا جب ایف آئی اے نے خفیہ اطلاع ملنے پر اپنے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو مریض بنا کر ہسپتال بھیجا تو جعلی سٹنٹ کے معاملے کے واضح ثبوت مل گئے جس کے بعد ایف آئی اے نے کارروائی کرتے ہوئے چار کروڑ روپے سے زائد مالیت کے جعلی سٹنٹ برآمد کر لئے۔ملزمان جو مہنگے سٹنٹ فروخت کر رہے تھے وہ ڈالے ہی نہیں جاتے تھے، اس مکروہ کاروبار میں بعض ڈاکٹر بھی ملے ہوئے تھے۔ فروخت کئے جانے والے سٹنٹس پر کسی کمپنی کا نام درج تھا، نہ ایکسپائری ڈیٹ لکھی گئی تھی۔