تازہ تر ین

وزیراعظم سے 52کروڑ تحائف کی تفصیل طلب

اسلام آباد (آئی این پی) سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق آف شور کمپنیوں سے کوئی آمدن نہیں ہوئی، اتنا پیسہ کہاں سے کمایا جاتا ہے جو پاکستان آرہا ہے، کوئی فریق مکمل تحقیقات چاہتا ہی نہیں، کوئی نہیں چاہتا کہ سچ سامنے آئے، فریقین خود ہی نہ چاہیں تو عدالت کیا کرسکتی ہے۔ بدھ کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ سماعت شروع ہوئی تو وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مریم نواز اپنے والد کے زیرکفالت نہیں، وزیراعظم نے مریم نواز کو تحائف بینکوں کے ذریعے دیئے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بینکنگ دستاویزات مصدقہ ہیں یا نہیں؟۔ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ اکاﺅنٹ نمبر دیئے ہوئے ہیں بینک سے ری چیک کیا جاسکتا ہے، بینک تفصیلات مخفی رکھنے کا حق ہر ایک کو حاصل ہے، وزیراعظم نے عدالت سے کچھ نہیں چھپایا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یاد نہیں پڑتا 1.9 ملین کا تحفہ شریف فیملی کے ٹیکس ریٹرن میں فائل ہو۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ تحفہ آیا ہے، یہ دوسرا فریق بھی تسلیم کرتا ہے لیکن اس پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ وکیل کہتے ہیں حسن نواز ملک چھوڑ چکے تھے لہذا ٹیکس استثنیٰ حاصل نہیں۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیراعظم کے ویلتھ اور انکم ٹیکس گوشوارے عدالت میں جمع ہیں، تحائف کا ذکر وزیراعظم کے گوشواروں میں موجود ہے، الزام ہے کہ آمدن کو تحائف ظاہر کرکے ٹیکس چھپایا گیا ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ رقم حسین نواز نے سعودی عرب سے 2010-11 میں بھیجی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عزیزیہ اسٹیل تو 2005 میں فروخت ہوگئی تھی، حسین کا اس کے بعد سعودی عرب میں کیا کاروبار تھا؟۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ حسین نواز کے کاروبار کی تفصیلات ان کے وکیل دیں گے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیس کا ایک حصہ منی لانڈرنگ سے متعلق بھی ہے، الزام ہے غیر قانونی طریقے سے رقوم بیرون ملک منتقل کی گئیں، رقم منتقلی کے حوالے سے آپ کو تفصیلات دینا ہوں گی۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ پہلا سوال یہ ہے کیا پاکستان سے کوئی رقم باہر گئی، کسی تکنیکی نکتے کے پیچھے چھپنے کی کوشش نہیں کروں گا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس معاملے کی پہلے بھی تحقیقات ہوچکی ہیں، تحقیقات میں بعض افراد کے نام بھی سامنے آئے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ اسحاق ڈار کا اعترافی بیان بھی سامنے آیا تھا، اعترافی بیان میں کئی لوگوں کے نام بھی تھے، تکنیکی بنیادوں پر منی لانڈرنگ والی تحقیقات مسترد ہوئیں، نیب نے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل بھی دائر نہیں کی، درخواست گزار نے نیب کے خلاف کارروائی کی استدعا کی ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ منی لانڈرنگ تحقیقات میں نامزد ملزمان کو شامل نہیں کیا گیا۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ نیب کو اپیل دائر کرنے کا حکم دینے کی بھی استدعا کی گئی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بلیک منی کو وائٹ کرنے کیلئے منی لانڈرنگ کی جاتی ہے، منی لانڈرنگ کرکے وہی رقم واپس پاکستان بھجوائی جاتی ہے، بلیک منی وائٹ کرنے والی بات نوازشریف کے حوالے سے نہیں کی، رحمان ملک رپورٹ میں حوالا اور ہنڈی سے رقم باہر بھیجنے کا ذکر ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ منی لانڈرنگ بیرون ملک بھی ہو تو حکام یہاں رابطہ کرتے ہیں، درخواست گزار نے خود تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، تحقیقات سے قبل آرٹیکل 63 نااہلی کیسے ہوسکتی ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ گوشواروں میں کوئی اور کالم نہ ہونے پر مریم نواز کا نام زیرکفالت میں لکھا گیا، ٹیکس فارم میں بعد ترمیم کی گئی، ٹیکس فارم میں ترمیم کے بعد اضافی کالم شامل کیا گیا، یہ کہنا کسی صورت درست نہیں کہ مریم نواز کو زیر کفالت تسلیم کیا گیا، نوازشریف نے مریم کے نام پر زمین خریدی تھی۔ جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کیا یہ جائیداد بے نامی تو نہیں تھی؟۔ وکیل نے کہا کہ ایسے معاملات کیلئے ٹیکس قوانین اور فارم میں ترمیم2015میں کی گئی۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کیا تبدیلی پانامہ پیپرز آنے کے بعد کی گئی۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ ٹیکس فارم میں ترمیم اگست 2015 میں کی گئی، پانامہ لیکس اپریل 2016 میں سامنے آئی۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ 2012 میں جائیداد مریم نواز کے نام منتقل ہوچکی تھی، 2012 میں مریم نے جائیداد کی رقم نوازشریف کو منتقل کردی تھی، رقم بینک کے ذریعے منتقل کی گئی، جائیداد نوازشریف کے2012کے گوشواروں میں جمع نہیں کرائی گئی، ممکن ہے 2011میں مریم کے پاس اتنے پیسے بھی موجود نہ ہوں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نوازشریف نے مریم کو تحفے میں بھی رقوم دی تھیں، نوازشریف نے حسین نواز سے تحفہ لے کر مریم کو کب دیا تھا ممکن ہے مریم نے والد سے تحفہ لے کر رقم واپس والد کو دی ہو، ہوسکتا ہے رقم غیر قانونی طریقے سے منتقل ہوئی ہو، وہی رقم تحفے کی شکل میں والد کو آئی اور بیٹی کو چلی گئی، اس سارے عمل میں اس رقم سے جائیداد بھی خریدی گئی، جائیداد خریدنے کی تاریخوں میں تضاد نظر آرہا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جائیداد خریداری کی تاریخ یکم مارچ2011درج ہے، اسٹام پیپرز پر تاریخ7فروری2011لکھی گئی ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ مریم نواز نے ایک سے زائد جائیدادیں خریدیں۔ دوسری جائیدادیں نوازشریف نے لے کر نہیں دیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ حسین نواز نے وزیراعظم کو تحفے میں کتنی رقم کب دی تھی، ریکارڈ پر کچھ نہیں، کیا رقم پاکستان سے حسین کو منتقل ہوئی۔ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ 2011میں حسین نے والد کو139ملین سے زائد رقم تحفے میں دی، حسین نے والد کو 2012میں 26ملین بطور تحفہ دیا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے پوچھا2011سے پہلے کوئی تحفہ دیا گیا یا گوشوارے جمع کروائے گئے؟۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ 2013میں 190 ملین اور 2014میں 197تحفے میں دیئے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کا کہ بظاہر لگتا ہے رقم کو ادھر سے ادھر گھمایا جارہا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایسا کونسا کاروبار ہے جہاں سے اتنی آمدن ہورہی ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ حسین نواز کے کاروبار کی تفصیلات ان کے وکیل بتائیں گے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں ہمیشہ باپ ہی بچوں کو تحفہ اور رقم دیتا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق آف شور کمپنیوں سے کوئی آمدن نہیں ہوئی۔ اتنا پیسہ کہاں سے کمایا جاتا ہے جو پاکستان آرہا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کوئی فریق مکمل تحقیقات چاہتا ہی نہیں ، کوئی نہیں چاہتا کہ سچ سامنے آئے،فریقین خود ہی نہ چاہیں تو عدالت کیا کرسکتی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم نے کسی تقریر میں نہیں کہا لندن فلیٹس ان کے نہیں، وزیراعظم نے انٹرویو میں کہا میں نے فیکٹری لگائی۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ نوازشریف نے کبھی نہیں کہا کہ فلیٹس ان کے ہیں، حسین نواز نے فلیٹس کی ملکیت تسلیم کی، وزیراعظم نے حسین کے موقف سے اختلاف نہیں کیا، اختلاف نہ کرنے موقف کی تائید ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم نے تقریر میں کہا والد نے کمر باندھی اور فیکٹری لگائی، انٹرویو میں نوازشریف نے کہا دوستوں کی مدد سے جدہ فیکٹری لگائی، جاننا چاہتے ہیں کہ یہ سب کیا ہے؟۔ وکیل نے کہا کہ وزیراعظم کسی آف شور کمپنی کے مالک یا ڈائریکٹر نہیں، شریف فیملی نے 1993سے1996تک لندن فلیٹس نہیں خریدے۔ سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے وزیراعظم کے وکیل سے نواز شریف کی تقاریر اور عدالت میں اٹھائے گئے موقف میں تضاد پر وضاحت طلب کرتے ہوئے بچوں کی جانب سے نواز شریف کو چار سال میں 52 کروڑ کے تحائف کے حوالے سے تفصیلات طلب کرلی ہیں کیس کی سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نواز شریف نے اپنی تقاریر میں کہا کہ والد نے کمر کس کر جدہ کی فیکٹری لگائی جبکہ انٹرویو میں کہا کہ میں نے کچھ دوستوں کی مدد سے فیکٹری لگائی یہ سب کہا ہے جاننا چاہتے ہیں ہوسکتا ہے کہ رقم بیرون ملک غیر قانونی طریقے سے بھیجی گئی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ کالا دھند ہوکر بیٹے نے باپ کو رقم بھیجی اور باپ نے بیٹی کے نام زمین خرید لی تحفے میں بیٹے نے باپ کو کوئی گھڑی نہیں دی صرف رقم ہی کیوں دی ہوسکتا ہے کہ امیروں کے تحفے ایسے ہی ہوتے ہوں انہوں نے کہا کہ بلیک منی کو وائٹ کرنے کیلئے منی لانڈرنگ کی جاتی ہے منی لانڈرنگ کرکے وہی رقم واپس پاکستان بھیجی جاتی ہے۔ جسٹس اعجاز الحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ چار سال میں حسین نواز نے والد کو باون کروڑ روپے تحفے میں دیئے جس سے تاثر ملتا ہے کہ رقم گردش کررہی ہے ہم اتنی بڑی رقم کا ذریعہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ کہاں سے آئی؟ جسٹس اعجاز افضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہمارے معاشرے میں والدین بچوں کو پیسے دیتے ہیں لیکن نواز شریف کے کیس میں مختلف ہورہا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ عزیزہ سٹیل مل 2005ءمیں فروخت ہوگئی تھی حسین نواز کا اس کے علاوہ سعودی عرب میں کیا کاروبار ہے عدالت کو بتایا جائے جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ حسین نواز کے بارے میں تفصیلات ان کے وکیل دینگے جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ طویل عرصہ سے ملک سے باہر ہونے پر این ٹی این کی حیثیت کیا ہوتی ہے اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ انسان زندہ نہ رہے تو بھی این ٹی این برقرار رہتا ہے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیس کا ایک حصہ منی لانڈرنگ سے متعلق ہے الزام ہے کہ رقوم غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک بھیجی گئی رقوم کی منتقلی کے حوالے سے آپ کو تفصیلات بتانا ہوں گی۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain