تازہ تر ین

صوبائی دارلحکومت منشیات فروشوں کے چنگل میں پھنس چکا۔۔۔

لاہور (خصوصی رپورٹ) صوبائی دارالحکومت میں منشیات کا ناسور اس قدر تیزی سے پھیل رہا ہے جس کا ماضی میں کبھی تصور بھی نہ تھا۔ نجی یونیورسٹیز کے طلباءاور چنبہ ہاﺅس میں لیگی خاتون ورکر کی نشے کی زیادتی کی وجہ سے ہونے والی اموات کے بعد بھی حکومتی نمائندے اور قانونی مشینری حرکت میں نہ آ سکے۔ نشے کی اس لعنت سے کوئی طبقہ‘ کوئی شعبہ‘ کوئی علاقہ محفوظ نہیں۔ پسماندہ علاقوں میں سستا نشہ جبکہ ہائی کلاس علاقوں میں مہنگی ترین ڈرگس کی فروخت اور استعمال عروج پر ہے۔ ایف آئی اے‘ لاہور پولیس‘ اینٹی نارکوٹکس فورس اور ڈرگس انسپکٹرز سمیت دیگر بااختیار محکموں کی موجودگی میں نشے کی سرعام فروخت اور استعمال سے آئے روز دھڑادھڑ اموات نے ان قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ صوبائی دارالحکومت سمیت دیگر اضلاع اور صوبوں میں منشیات کی فروخت اور اس کے استعمال کا ناسور بھیانک شکل اختیار کر چکا ہے۔ ماضی کی نسبت آج ہم ایک انتہائی خطرناک موڑ پرکھڑے ہیں جہاں پاکستان کی ترقی کے حقائق ایک طرف منشیات کی سرعام فروخت اور استعمال نے شہریوں کو جھنجھلا کر رکھ دیا ہے۔ منشیات کی فروخت اور استعمال کا اگر بغور جائزہ لیاجائے تو یہ کسی ایک علاقے‘ طبقے یا شعبے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ حکومتی ایوانوں سے لے کر کچی آبادیوں تک ہر جگہ سرایت کر چکا ہے۔ چند ہفتے قبل لاہور میں چنبہ ہاﺅس میں لیگی خاتون ورکر سمیعہ چودھری کی ہلاکت کا واقعہ رونما ہوا جس کی تفتیش اور مرحومہ کی پوسٹمارٹم رپورٹ اور فرانزک لیب کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد موت کی حتمی وجہ پاﺅڈر نما نشے کی زیادتی بتائی گئی ہے جس کی وجہ سے پھیپھڑوں پر سیاہ دھبے پڑ گئے تھے۔ دوسری جانب چند ماہ کے دوران شہر کی مختلف نجی یونیورسٹیز میں منشیات کی زیادہ مقدار استعمال کرنے سے ہونے والے طلبہ کی ہلاکتوں نے بھی عوامی حلقوں میں بے چینی کی فضا قائم کر رکھی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ منشیات کی لت میں مبتلا لڑکیوں کو پہلے منشیات کا عادی کیا جاتا ہے اور پھر منشیات کی فراہمی بند کر کے انہیں بلیک میل کر کے غلط کاری پر مجبور کیا جاتا ہے اور مقصد پورا ہونے کے بعد انہیں منشیات فراہم کی جاتی ہیں جس سے نہ صرف منشیات ان کی زندگیاں نگل رہی ہے بلکہ اس کی وجہ سے وطن عزیز کی بیٹیوں کی عزتیں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ بات تعلیمی اداروں پر آ کر نہیں رکتی بلکہ پورا شہر منشیات فروشوں کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے‘ جس کی واضح مثال ہمیں لاہور کی شاہراہوں پر چلتے ہوئے فٹ پاتھوں‘ گرین بیلٹس اور دیگر جگہوں پر منشیات کے عادی افراد کی کثیر تعداد سے ملتی ہے‘ لیکن حکومتی عہدیدار یا قانون نافذ کرنے والے اعلیٰ افسران سے اہلکاروں تک کسی کی بھی نظر نہیں پڑتی یا کوئی دانستہ طور پر اس حوالے سے آواز بلند کرنے یا ایکشن لینے کو تیار نہیں۔ شہر میں امیرترین طبقے کی جانب سے مہنگی ترین منشیات استعمال کی جاتی ہیں جبکہ درمیانے طبقے اور پسماندہ طبقے کی جانب سے سستی سے سستی منشیات کا انتخاب کیا جاتا ہے اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ لاہور میں ہر قسم کی منشیات باآسانی ہر علاقے میں دستیاب ہیں۔ امیرترین طبقے میں استعمال ہونے والی مہنگی ترین منشیات میں کرسٹل‘ آئس‘ ہیروئن‘ کوکین‘ افیون‘ شراب‘ گردہ اور الکوحل شامل ہیں جو کہ امیرترین گھروں کی خواتین‘ مرد اور مہنگی ترین یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم مہنگی ترین گاڑیوں میںگھومنے والے امیرزادے استعمال کرتے ہیں۔ یہ منشیات ڈیفنس‘ گلبرگ اور دیگر پوش علاقوں میں مختلف چوراہوں‘ مارکیٹوں اور تعلیمی اداروں کے باہر اور اندر فروخت کی جاتی ہیں۔ درمیانے اور پسماندہ طبقے کی منشیات میں کچی شراب‘ کپی‘ چرس‘ مختلف کھانسی کے سیرپ‘ ریسٹوریل کے کیپسول‘ بھنگ‘ ڈیزی پام انجکشن‘ زنور انجکشن‘ ایول انجکشن اور بی پی راﺅنڈ انجکشن سمیت دیگر شامل ہیں اور یہ تمام منشیات بھی نہ صرف لاہور کے ہر علاقہ سے باآسانی دستیاب بھی ہیں بلکہ سرعام استعمال بھی کی جا رہی ہیں۔ شہر کے ہر علاقے میںشراب‘ چرس اور افیون کی بھرمار ہے اور ہر جگہ سے باآسانی دستیاب ہے جبکہ بھنگ صرف مخصوص درباروں پر میسر ہے۔ نشہ آور انجکشنوں کی فروخت اور استعمال میں گزشتہ چند سالوں میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور یہ نشہ آور ممنوعہ انجکشن شہر کے تمام بڑے ہسپتالوں کے باہر موجود درجنوں میڈیکل سٹورز میں سے چند ایک مخصوص منشیات فروشوں کے میڈیکل سٹورز سے بآسانی دستیاب ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان میڈیکل سٹورز کے قریب نشہ آور انجکشن استعمال کرنے والوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر بھیک مانگتی ، کاغذت اٹھاتی، انجکشن لگاتی اور نشے میں دھت پڑی دکھائی دیتی ہے۔ شہر میں گنگا رام چوک کے اطراف وارث روڈ، ٹیمپل روڈ، لارنس روڈ، بھاٹی گیٹ چوک، کربلا گامے شاہ چوک، داتا دربار کے سامنے اور اطراف پیر مکی دربار، ٹبی سٹی کی گلی محلوں اور باب علی پارک، یادگار چوک ، لاہور ریلوے سٹیشن، لاری اڈا، بادامی باغ کے گلی محلوں اور بادامی باغ ریلوے سٹیشن کے قریب، شاہدرہ و ریلوے لائن کے دونوں اطراف آبادی میں، بند روڈ کی ملحقہ متعدد آبادیوں اور ملتان چونگی کے اطراف سمیت مختلف علاقوں میں منشیات فروخت کرنے اور استعمال کرنے والوں کی بڑی تعداد دکھائی دیتی ہے۔ سی سی پی او آفس کے قریب حساس ترین چوک میں نشئیوں کی بڑی تعداد ہر وقت موجود رہتی ہے جہاں ماضی میں ملک دشمن عناصر کی جانب سے پولیس ایمرجنسی 15 کی عمارت کو تخریب کاری کا نشانہ بنایا جا چکا ہے اور حساس اداروں کی جانب سے بھی اس حوالے سے اطلاعات دی گئی ہیں کہ ممکنہ طور پر بھیک مانگنے والوں یا منشیات کے عادی افراد کے بھیس میں ملک دشمن عناصر کوئی دہشت گردانہ کارروائی کرسکتے ہیں لیکن اس کے باوجود لاہور پولیس کی جانب سے نہ تو منشیات فروشوں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے اورنہ ہی استعمال کرنے والوں کے خلاف جبکہ بھیک مانگنے والے بھی سرعام سڑکوں پر بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ شناختی کارڈ ہولڈرز، منشیات کے عادی افراد سے چند سو روپے کے عوض جرائم پیشہ افراد کی جانب سے مختلف کمپنیوں کی سمیں ایکٹیو کروا کر غیر قانونی طور پر استعمال کرنے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ پاکستان کے وہ نامور محکمے جو کہ پیشہ ورانہ مہارت کے لحاظ سے کسی بھی تعریف کے محتاج نہیں ہیں اور جن سے ملک دشمن اور جرائم پیشہ عناصر بھی کانپتے ہیں، نامعلوم وجوہات کی بنا پر وہ بھی خاموش دکھائی دیتے ہیں جن میں ایف آئی اے، لاہور پولیس کے آپریشن ونگ، انویسٹی گیشن ونگ، سی آئی اے ونگ، سپیشل برانچ، مجاہد سکواڈ، محافظ سکواڈ، ڈولفن سکواڈ، پی آر یو سکواڈ، ایلیٹ فورس، ہومیسائیڈ یونٹ اور سی ٹی ڈی سمیت محکمہ انسداد منشیات اور محکمہ ہیلتھ شامل ہیں۔ آئے روز شہر کے مختلف علاقوں سے نشے کی زیادتی یا نشہ آور انجکشن کے ری ایکشن سے ہلاکتوں کی ایک بہت لمبی فہرست ہے اور شہر میں ماہانہ چالیس کے قریب افراد مختلف قسم کی منشیات کے استعمال سے ہلاک ہوتے ہیں جن کو متعلقہ پولیس اہلکار نشئی اور لاوارث قرار دیکر ایدھی اور دیگر فلاحی تنظیموں کی مدد سے میانی صاحب قبرستان میں سپردخاک کر دیتے ہیں اور یہ سلسلہ ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا اور وقت کے ساتھ ساتھ لاہور میں لاوارث افراد کی ہلاکتوں میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو کہ اعلیٰ حکومتی عہدیداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain