تازہ تر ین

کشمیر ، افغانستان یا بھارت میں حملوں کا منصوبہ …. ملبہ کس پر ڈالا جائیگا ، دیکھئے خبر

نئی دہلی (خصوصی رپورٹ)نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اسلامی دنیا کے خلاف عزائم کو کیش کرانے کے لئے بھارتی ”را“ اور افغان انٹیلی جنس ”این ڈی ایس“ متحرک ہوگئی ہیں۔ واضح رہے کہ اپنی صدارت کا حلف اٹھاتے ہی ٹرمپ نے افتتاحی خطاب میں ”اسلامی انتہاپسندی“ کو کچلنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب ورجینیا میں سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) ہیڈکوارٹر کے دورے کے موقع پر امریکی صدر نے خفیہ ایجنسی کے افسران کو ”اسلامی دہشت گردی“ سے نمٹنے کی تیاری کا حکم دیا ہے۔ اعلیٰ سکیورٹی حلقوں سے جڑے ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ نے نائن الیون کے بعد اسلامی دنیا کے خلاف جو پالیسی اختیار کی‘ بھارت نے اسے پاکستان کے خلاف بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ اب مودی سرکار نئے امریکی صدر ٹرمپ کے اسلام مخالف عزائم سے فائدہ اٹھانے کی تیاری کررہی ہے۔ اس ناپاک عزائم میں بھارت کو افغان خفیہ ایجنسی ”این ڈی ایس“ کی مکمل اور سی آئی اے کی بالواسطہ سپورٹ حاصل ہے۔ ذرائع کے بقول ایسی انٹیلی جنس اطلاعات ہیں کہ بھارتی اور افغان خفیہ ایجنسیوں نے مل کر ایک بڑے FALSE FLAG (جعلی حملے) کی منصوبہ بندی شروع کردی ہے۔ فالس فلیگ کی اصطلاح ایسے خفیہ آپریشنز کے لئے استعمال کی جاتی ہے جس میں مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کے لئے کوئی ریاست خود پر جعلی حملہ کرا کے اس کا ملبہ مخالف ملک پر ڈال دیتی ہے۔ دفاعی تجزیہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد آج بھی 2001ءمیں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے اور 2008ءکے ممبئی حملوں میں ”فالس فلیگ“ آپریشن قرار دیتی ہے۔ قومی سلامتی کے اداروں کے پاس بھی ایسے شواہد ہیں کہ بھارت نے پاکستان پر دباﺅ بڑھانے کے لئے یہ کارروائیں خود کرائی تھیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلامی دنیا کے خلاف ٹرمپ کے جارحانہ عزائم کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی خاطر ”را“ نے ایک بار پھر اسی نوعیت کا بڑا جعلی حملہ کرانے کی منصوبہ بندی شروع کردی ہے۔ اس پلان کا خالق اجیت دووال ہے‘ جسے حال ہی میں وزیراعظم مودی نے اس منصوبے کو قابل عمل بنانے کا گرین سگنل دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق انٹیلی جنس اطلاعات ہیں کہ آنے والے ہفتوں یا چند ماہ کے اندر مقبوضہ کشمیر‘ افغانستان یا بھارت سے کسی ایک مقام پر بڑا جعلی حملہ متوقع ہے تاکہ اس کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر نئی امریکی انتظامیہ کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکے۔ اس بار زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ ”را“ اور ”این ڈی ایس“ کی اس منصوبہ بندی میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی ”موساد“ بھی شامل ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ اس مذموم منصوبہ بندی پر عمل کرنے کے لئے ملک دشمن ایجنسیوں کے پاس افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان موجود ہے۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں اوڑی واقعہ کی طرح کرائے کے مجاہدین کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک بھارت کے اندر فالس فلیگ آپریشن کرانے کا تعلق ہے تو اس کے لئے بھی افغانستان سے ٹی ٹی پی یا مقبوضہ کشمیر سے کرائے گئے مجاہدین لے کر کارروائی کرائی جاسکتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جن عناصر سے بھی یہ مجوزہ کارروائی کرانے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ ان پر پاکستان کی پکی چھاپ کو یقین بنایا جائے گا۔ ان حملہ آوروں سے ٹیلی فون بھی کرائے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق یہ منصوبہ بندی ابتدائی مراحل میں ہے۔ ابھی یہ حتمی فیصلہ نہیںکیا گیا کہ متذکرہ تینوں مقامات میں سے کس کو ”فالس فلیگ آپریشن“ کے لئے منتخب کیا جائے جبکہ ”را“ اور ”این ڈی ایس“ ایک دوسرے آپریشن پر بھی مشاورت کررہی ہیں کہ اگر نئی ٹرمپ انتظامیہ کو فوری طیش دلانا ہے تو پھر افغانستان میں کسی امریکی ملٹری بیس کو نشانہ بنوایا جائے۔ ذرائع کے مطابق اوباما میں کسی حد تک صبروتحمل تھا اور بہت سے اقدامات وہ سوچ سمجھ کر کیا کرتے تھے۔ تاہم اس کے برعکس ٹرمپ میں نہ صبر ہے نہ حوصلہ۔ انہیں آسانی سے مشتعل کرا کے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بھارتی منصوبہ سازوں کے پیش نظر یہی سب سے پلس پوائنٹ ہے۔ ذرائع کے بقول مجوزہ ”فالس فلیگ آپریشن“ کے بعد ٹرمپ کو جوابی کارروائی کے لئے اکسانے کا کام سی آئی اے سے لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو پہلے ہی اسلامی دنیا اور بالخصوص پاکستان مخالف منصوبوں میں ”را“ اور ”این ڈی ایس“ کا بازو بنی ہوئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چند روز پہلے حامد کزائی کا یہ بیان بھی اس منصوبہ بندی کی کڑی ہے۔ جس میں سابق افغان صدر نے نئے امریکی صدر ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقتدار سنبھالنے سے پہلے آپ نے پاکستان میں موجود ”دہشت گرد کیمپ“ تباہ کرنے کا جو وعدہ کیا تھا۔ اسے پورا کریں اور امید ہے کہ اوباما کی طرح اپنے وعدے سے نہیں پھریں گے۔ سکیورٹی حلقوں سے جڑے ذرائع کے مطابق نائن الیون کے بعد جب بش انتظامیہ افغانستان پر حملے کی تیاری کررہی تھی تو بھارت نے امریکی صدر کو کہا تھا کہ صرف افغانستان میں ایکشن کرکے کوئی رزلٹ نہیں ملے گا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ اس میں مددد کے لئے بھارتی فوجی اڈے وسائل اور فوج تیار ہے۔ جس پر بش نے بھارتی حکام کو کہا تھا کہ آپ کی تجویز بہت اچھی ہے۔ تاہم امریکی کی کچھ مجبوریاں ہیں کہ وہ پاکستان کے تعاون کے بغیر طالبان کو شکست اور افغانستان پر قبضہ نہیںکرسکتا۔ لہٰذا اس مجبوری کے تحت امریکہ‘ پاکستان کو بظاہر دوست بنائے گا۔ اس سے کام بھی لے گا اور دوسری جانب کورٹ وار یعنی خفیہ آپریشنز کے ذرائع پاکستان کو کمزور بھی کرتا رہے گا۔ اس کے بعد ہی بھارتی خواہش پر عمل درآمد ممکن ہے۔ ذرائع کے مطابق بش انتظامیہ نے اپنے اس پروگرام کے ایک بڑے حصے پر عمل کیا، تاہم اس کے آخری حصے میں یعنی کورٹ آپریشنز کے ذریعے پاکستان کو کمزور کرکے نشانہ بنانے کی خواہش پر عمل نہیں کر سکا۔ ذرائع کے بقول نائن الیون کے بعد امریکہ سے جس قسم کی خواہش کا اظہار بھارت نے کیا تھا، اب اس نوعیت کی خواہش حامد کرزئی کر رہا ہے جو را کے پے رول پر ہیں۔ کرزئی کی اس وقت بھی افغان حکومت میں خاصی جڑیں ہیں جبکہ اطلاعات ہیں کہ نئی امریکی انتظامیہ سے اسی قسم کا مطالبہ اشرف غنی کی جانب سے بھی متوقع ہے کہ اس کیلئے بھارت کا افغانستان پر شدید دباﺅ ہے۔ ذرائع کے مطابق ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا حکم اسی ڈیل کے تحت دیا ہے۔ ماضی میں اسرائیل کے تمام تر دباﺅ کے باوجود اوباما نے یہ قدم اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔ تل ابیب سے امریکی ایمبیسی کی یروشلم منتقلی کا سیدھا مطلب یروشلم کو اسرائیلی کا دارالحکومت تسلیم کرنا ہے۔ حالانکہ اوسلو معاہدے میں ٹو اسٹیٹ پالیسی کے تحت طے ہوا تھا کہ مشرقی یروشلم کا کنٹرول اسرائیل، جبکہ مغربی یروشلم فلسطینی اتھارٹی کے پاس رہے گا جس میں مسجد اقصیٰ بھی واقع ہے۔ ذرائع کے مطابق اس معاہدے کا مقصد محض فلسطینیوں کے انتفادہٹو کے مومنٹم کو توڑنا تھا۔ اس مقصد میں کامیابی کے کچھ عرصے بعد ہی یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت بنانے کی کوششیں شروع کردی گئی تھیں لیکن مشرق وسطیٰ میں دوبارہ تشدد بھڑکنے کے خوف سے کوئی امریکی صدراس پر عملدرآمد کیلئے تیار نہیں تھا۔ تاہم ٹرمپ نےاقتدار سنبھالتے ہی پہلے قدم کے طور پر اسرائیل کی سب سے بڑی خواہش کو پورا کردیا ہے۔ یہ فلسطینی اتھارٹی اور عرب ورلڈ کے لئے سب سے تکلیف دہ بات ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک بار پھر مشرقی وسطیٰ میں تشدد بھڑکے گا۔ جبکہ ردعمل میں ٹرمپ انتظامیہ کو اسلامی انتہاءپسندی کے خاتمے کے نام پر دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کو مزید طول دینے کا جواز مل جائے گا۔ ذرائع کے مطابق دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ افغانستان میں دوبارہ مزید فوجی بھیجنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ 2017ءمیں جو سنیاریوبن رہا ہے اس میں ٹرمپ نے بیرونی اہداف کے حوالے سے رزلٹ دکھانے ہیں تاکہ وہ یہودی لابی کے اس فیصلے کو درست ثابت کرسکیں جس کے تحت ان کے صدر بننے میں مدد کی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہابتدا میں ٹرمپ کی امریکی سی آئی اے کے ساتھ جو چپقلش پیدا ہوگئی تھی، باس بننے کے بعد اس کا خاتمہ ہوگیا ہے کہاب دونوں کے اہداف مشترکہ اس کے پیچھے اسرائیل لابی ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں خفیہ آپریشنز کے لیے سی آئی اے کو نئی امریکی انتظامیہ کی جانب سے مکمل اختیارات اور بھرپور وسائل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain