اسلام آباد: (ویب ڈیسک) پنجاب پر کس کا راج؟ ہر نظر سپریم کورٹ پر، ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف پرویزالٰہی کی درخواست پرسماعت جاری ہے۔
کیس کی سماعت کے دوران دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ فل کورٹ بنانا کیس کو غیر ضروری التوا کا شکار کرنے کے مترادف ہے اور فل کورٹ بنتا تو معاملہ ستمبرتک چلا جاتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ابھی تک نہیں بتایا گیا کس قانون کے تحت فل کورٹ بنچ بنائیں، صوبے کے چیف ایگزیکٹو کا معاملہ ہے فیصلے میں تاخیر نہیں کرسکتے۔
سماعت کے آغاز پر عرفان قادر نے کیس کی کارروائی کا حصہ بننے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کی ہدایت ہے کہ عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بننا، ملک میں عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ چل رہا ہے، فل کورٹ سے متعلق فیصلے پر نظرثانی دائر کریں گے۔
اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بھی عدالت کو کارروائی کے بائیکاٹ سے آگاہ کردیا۔
چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے مکالمہ کیا کہ آپ تو کیس کے فریق ہی نہیں، اس کے بعد عدالت نے پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے فل کورٹ بنانے کا کوئی قانونی جوازپیش نہیں کیا گیا، عدالت میں صرف پارٹی سربراہ کی ہدایات پرعمل کرنے سے متعلق دلائل دیے گئے، ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں، اصل سوال تھا کہ ارکان کو ہدایات کون دے سکتا ہے، آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس سوال کے جواب کیلئے کسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں، اس کیس کو جلد مکمل کرنے کو ترجیح دیں گے، فل کورٹ بنانا کیس کو غیر ضروری التوا کا شکار کرنے کے مترادف ہے، فل کورٹ بنتا تو معاملہ ستمبرتک چلا جاتا کیونکہ عدالتی تعطیلات چل رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ گورننس اور بحران کے حل کیلئے جلدی کیس نمٹانا چاہتے ہیں، آرٹیکل63 اے کی تشریح میں کون ہدایت دے گا یہ سوال نہیں تھا، تشریح کے وقت سوال صرف انحراف کرنے والے کے نتیجے کا تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے فل کورٹ بنانےکی درخواست مستردکردی تھی جس کے بعد حکمران اتحاد نے عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔
گزشتہ روز عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ معاملے کی بنیاد قانونی سوال ہےکہ ارکان اسمبلی کو ہدایت پارٹی سربراہ دے سکتا ہے یا نہیں؟،چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ سنجیدہ اور پیچیدہ معاملات پر بنایا جاتا ہے اور موجودہ کیس پیچیدہ نہیں۔