سوال: آپ جماعت اسلامی کی رکن کب بنیں؟ اور اس کا کیا فائدہ ہوا؟
جواب: میری بہت ہی عزیز سہیلی زہرہ وحید‘ ثریا اسمائ‘ بیگم واصل اور بنت مجتبیٰ کے پرزور اصرار پر میں نے 84ءمیں رکنیت کا فارم فل کیا۔ اس کے علاوہ بیگم اسعد‘ بیگم مسعود خان‘ آپا صفیہ قرنی اور آپا بلقیس صوفی اور حلقہ ¿ خواتین کی دیگر ارکان میری عزیز سہیلیوں میں سے تھیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ اجتماعیت اسلام کا اہم ترین تقاضا ہے اور مجھے جماعت کے ساتھ وابستہ ہونے کی وجہ سے اپنی اور اپنی اولاد کی بہترین تربیت کے مواقع ملے۔ جماعت اسلامی اس مادہ پرست تہذیب کے چنگل سے بچانے کے لئے حفاظت کی ڈھال ہے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ سارے اچھے لوگ صرف جماعت اسلامی میں ہی ہیں‘ ہمیں کسی تعصب میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے مگر اس دور میں یہ ہماری نئی نسل کے لئے غنیمت ہے۔
سوال:قاضی صاحب 22 سال امارت پر فائز رہے۔ آپ کے خیال میں انہوں نے جماعت کو کتنا فائدہ پہنچایا؟
جواب: میرا خیال ہے کہ آپ کو شاید اس سوال کا جواب ان لاکھوں لوگوں سے لینا چاہئے جو قاضی صاحب کی جدائی پر ایسے بے قرار ہیں جیسے وہ ہی سب سے زیادہ ان کے قریب تھے۔ ہمیں تو خود ان کی زندگی میں یہ اندازہ نہ تھا کہ وہ عزیز جہاں ہیں۔ اللہ ان کی کوششوں کو قبول کرکے وہاں بھی عزت و سرفرازی کے مقام پر رکھے۔
سوال: قاضی صاحب ایک متحرک انسان تھے۔ آپ کو ان کے طرز سیاست سے کبھی اختلاف ہوا؟
جواب: ان کی بہت متحرک طبیعت کی وجہ سے اگرچہ مجھے وہ کبھی کم وقت دے پاتے مگر وہ اتنا بھرپور وقت ہوتا اور اتنی محبت اور توجہ ملتی اور انہوں نے مجھے اتنے زیادہ حقوق عطا کئے کہ مجھے ان کے طرز سیاست سے اختلاف نہیں بلکہ اتفاق رہا۔ میں ان کی ہم سفربھی رہی اور ان کی کارکن بھی۔ جہاد افغانستان کے زمانے میں ایک دفعہ کیمپوں کے دورے سے واپسی پر مجھ سے پوچھا کہ کبھی ہم پر ایسا وقت آیا تو میرا ساتھ دو گی؟ میں نے جواب دیا کہ آزمائشوں سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے مگر جب آزمائش آئے گی تو دل و جان سے آپ کے ساتھ ہوں گی۔ کبھی کسی بات پر اختلاف ہوتا تو اس کا اظہار بھی میں کر دیتی تھی۔ قاضی صاحب توجہ سے بات سنتے تھے اور اگر بات میں وزن ہوتا تو قبول کرلیتے تھے۔
سوال: اب تک تین امرائے جماعت اپنی ذمہ داریاں نبھا کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوچکے ہیں‘ آپ کے خیال میں کس امیر جماعت کا دور سب سے بہترین رہا اور کس وجہ سے؟
جواب: سب امرائے جماعت نے اپنی اپنی جدوجہد کی اور اللہ کے حضور حاضر ہوگئے ہیں۔ اللہ ان سے راضی ہوجائے اور ان کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے۔
سوال: امیر جماعت کی بیگم قاضی اور بغیر امارات کے بیگم قاضی میں کہاں کہاں اور کیسا کیسا فرق محسوس کیا آپ نے؟
جواب: الحمدللہ جماعت اسلامی کے کارکنان نے ہمیشہ اپنی محبت اور عزت سے نوازا۔ قاضی صاحب کے جانے کے بعد تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ مجھے کتنے پیارے لوگوں کے درمیان چھوڑ کر رخصت ہوئے ہیں۔ میرا اتنا بڑا غم تقسیم ہوکر کم ہوجاتا ہے۔
سوال: آپ دونوں کا پچاس برس کا ساتھ رہا‘ ذرا یہ بتایئے کہ قاضی صاحب کن باتوں پر زیادہ خوش ہوتے تھے اور کن پر رنجیدہ؟ آپ کو تحائف کب اور کیا دیا کرتے تھے؟
جواب: یہ نصف صدی کا قصہ ہے۔ ایک انٹرویو اور ایک سوال میں اس کا جواب دینا ناممکن ہے۔ الحمدللہ! بہت خوبصورت یادیں ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں مجھے ایک لفظ سے آشنا کرایا اور وہ ہے ”محبت کے ساتھ عزت و احترام۔“
اتنی زیادہ قدردانی اور اتنی زیادہ محبت اور سب سے بڑھ کر عزت افزائی کرنا جس نے ہمارے خاندان کی مضبوط بنیاد رکھی۔ بہت زیادہ تحفے تحائف دینے کا شوق رہا۔ میرے بچے بتاتے ہیں کہ سب سے خوبصورت چیز اور سب سے مہنگی چیز دیکھ کر کہتے تھے کہ یہ امی کے لئے ضرور لے لو۔ کبھی بیرونِ ملک جاتے تو واپسی پر بچوں کے لئے چھوٹی موٹی چیز تحفے میں لے آتے۔
سوال: قاضی صاحب کھانے میں کیا پسند کرتے تھے؟
جواب: بہت سادہ کھانا کھاتے تھے مگر بہت شوق سے کھاتے تھے۔ جو کچھ تیار ہوتا بڑے شوق سے کھا لیتے۔ کبھی کوئی شکایت نہیں کی۔
سوال: کن باتوں پر جلال میں آجاتے تھے؟
جواب: ان کی ذاتی زندگی میں جلال کے لمحات بہت کم آتے تھے۔ کوئی جھوٹ بولتا تو اس پر بہت ناراض ہوتے تھے۔ خیانت پر بہت غصہ کرتے تھے۔ البتہ قومی معاملات میں حکمرانوں کی خیانت پر وہ ضرور جلال میں آتے تھے۔
سوال: نفلی عبادات کا کیا عالم تھا؟ گھر کے اندر ان کے معمولات کیا تھے؟
جواب: قرآن وحدیث ان کی زندگی کا لازم حصہ تھا اور نفلی عبادات میں بہت اخفا کا خیال رکھتے تھے۔ اس لئے میں بھی اس پر بہت تبصرہ نہیں کروں گی‘ مگر وہ آج کے دور کے ولی تھے۔ جیسا ظاہر ویسا باطن۔ سفید لباس کی طرح کردار بھی اُجلا۔ اللہ ان سے راضی ہوجائے۔ سب سے بڑی عبادت انہیں اقامت دین کی جدوجہد نظر آتی تھی اور وہ قرآن کریم سے اس کے لئے ہدایات کو اپنی زندگی کا نصب العین سمجھتے تھے۔
سوال: بچوں میں سے کس سے سب سے زیادہ محبت تھی انہیں؟
جواب: بچوں میں اتنا زیادہ توازن رکھتے تھے کہ ہر ایک یہی سمجھتا ہے کہ وہ مجھ سے سب سے زیادہ قریب تھے۔ بس جس بچے کو زیادہ ضرورت ہوتی تھی‘ اسی کے زیادہ قریب ہوکر اس کا خیال رکھتے تھے۔ الحمدللہ چاروں بچے ان کے دست و بازو بنے رہے۔ وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ ان کی اولاد ان کی نظریاتی کارکن بھی ہے۔
سوال: قاضی صاحب کے ہوتے ہوئے آپ کی مصروفیات کیا تھیں؟ اب معمولات کیا ہیں؟
جواب: ان کی زندگی بھی بھرپور اور اب ان کی جدائی بھی اتنی مصروفیت کا باعث ہے کہ مہینے سے زیادہ ہوگیا ہے اور ایک تانتا بندھا رہتا ہے۔ ”تیرے بعد اب کہاں وفا کے ہنگامے!“
سوال: آپ نے یا کسی اور فرد نے انہیں وفات کے بعد خواب میں دیکھا؟
جواب: وہ خوابوں سے زیادہ عمل پر یقین رکھتے تھے۔ ہمیں کچھ لوگوں نے ان کے بارے میں اچھے خواب بتائے ہیں مگر میں ان کے لئے اپنے رحمٰن رب سے دعا گو ہوں کہ وہ انہیں خوش رکھے اور اپنی رحمتوں میں رکھے۔ انبیائ‘ صدیقین‘ شہداءاور صالحین کا ساتھ نصیب کرے۔
سوال: اپنے خاندان پر وہ شجر سایہ دار کی مانند تھے‘ کس وقت اور کس کس پر یہ سایہ کرتے رہے؟
جواب: اپنے خاندان اور اڑوس پڑوس کے سب لوگوں سے ان کا تعلق تو آپ آکر اب دیکھیں کہ لوگ ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ کیا رشتے دار‘ کیا یتیم‘ کیا ملازم‘ کیا ہمسائے اور کس کس کی بات اور کس کس کا قصہ سناﺅں! وہ صرف اپنے بچوں ہی کے آغا جان نہیں تھے بلکہ وسیع تر خاندان‘ احباب اور تحریکی رفقاءکے لئے بھی ایک شجر سایہ دار تھے۔
سوال: اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے نام کوئی آپ کا کوئی پیغام؟
جواب: آپ سب سے درخواست ہے کہ ان کے لئے دعائے مغفرت کیا کریں اور مجھے بھی اور میرے بچوں کو بھی اپنی دعاﺅں میں یاد رکھیں کہ اللہ دنیا میں اپنی دین کی مزدوری کا کام لے اور آخرت میں ہم سے راضی ہوجائے۔ آمین
٭٭٭