اسلام آباد: (ویب ڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ نے بغاوت کے مقدمے میں پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں بغاوت مقدمے میں شہباز گل کی ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی، ملزم کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل میں کہا ہے کہ شہباز گل کی درخواست ضمانت ایڈیشنل سیشن جج نے مسترد کی تھی، مقدمہ میں 14 دفعات لگائی گئیں ہیں، تفتیش مکمل ہو چکی ہے، برآمدگی اور کوئی نہیں کرنی۔
وکیل نے دلائل دئیے کہ ایک تقریر پر شہباز گل کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، شہباز گل کیس خارج کرنے کی درخواست بھی زیر التوا ہے، شہباز گل پی ٹی آئی حکومت میں معاون خصوصی تھے، ان کو حکومت ختم ہونے کے بعد عمران خان کا چیف آف سٹاف بنا دیا گیا۔
دلائل پرچیف جسٹس اطہر من اللہ نے شہباز گل کے وکیل کو سیاسی بات کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ آپ قانونی نکات پر دلائل دیں، شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر نے ایف آئی آر کا متن پڑھ کر سنا یا۔
وکیل نے کہا کہ پورا کیس ایک تقریر کے اردگرد گھومتا ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا یہ ساری باتیں شہباز گِل نے کہی تھیں؟ کیا ان تمام باتوں کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیا سیاسی جماعت کے ایک ترجمان کے ان الفاظ کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟ کیا سیاسی جماعتوں کو آرمڈ فورسز کو سیاست میں دھکیلنا چاہیے؟یہ صرف تقریر نہیں ہے۔
وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شہباز گل کی گفتگو کا کچھ حصہ نکال کر سیاق و سباق سے الگ کر دیا گیا، انہوں نے کہیں بھی فوج کی تضحیک کرنے کی کوشش نہیں کی، شہباز گل نے اپنی گفتگو میں مسلم لیگ ن کی سینئر قیادت کے نام لئے، مقدمہ میں بدنیتی سے اور منصوبے کے تحت یہ تمام باتیں نکال دی گئیں۔
دوران سماعت وکیل نے مزید کہا ہے کہ شہباز گِل کے ریمانڈ کو بہت متنازع بنایا گیا، بغاوت کی دفعات نے مقدمہ کو بھی متنازعہ بنا دیا، ٹرائل کورٹ نے کہا کہ 13 میں سے 12 دفعات شہباز گل پر نہیں لگتیں، شہباز گل کی ساری گفتگو سٹریٹیجک میڈیا سیل سے متعلق تھی۔
شہباز گل کے وکیل نے دلائل میں کہا آرمڈ فورسز کی طرف سے مقدمہ درج کرانے کا اختیار کسی اور کے پاس نہیں، شہباز گل پر مقدمہ میں بغاوت کی دفعات بھی شامل کر دی گئیں، ٹرائل کورٹ نے تو پراسیکیوشن کا کیس ہی ختم کر دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتوں نے نفرت کو کس حد تک بڑھا دیا، اس تقریر کو دیکھ لیں یہ گفتگو بتاتی ہے کہ نفرت کو کس حد تک بڑھا دیا گیا ہے، یہ عدالت پی ٹی ایم کے خلاف بغاوت کیس میں تفصیلی فیصلہ دے چکی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا شہباز گل کا بیان غیرمناسب تھا اس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا، شہباز گل کا بیان ہتک آمیز بھی تھا، لوگوں کی عزتیں نہیں اچھالنی چاہئیں، شہباز گِل پر لگائی گئی دفعات کیسے غلط ہیں؟
پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا اگر اس طرح معافی قبول کی جائے تو قتل کرنے والا بھی ٹرائل کورٹ سے معافی مانگ لے، چیف جسٹس نے مکالمے میں کہا بغاوت کالونیل قانون ہے اس پر دلائل نہ دیں، یہ عدالت بغاوت کو نہیں مانتی، اسے چھوڑ کر باقی دفعات پر دلائل دیں۔
پراسیکیوٹر نے بتایا کہ شہباز گل کے تھورایا فون کی فرانزک کی رپورٹ آنا باقی ہے، شہباز گِل کا موبائل ڈرائیور لے گیا آج تک موبائل فراہم نہیں کیا گیا، شہباز گل پراسیکیوشن کے ساتھ تفتیش میں بالکل تعاون نہیں کر رہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پچھلی جو حکومت تھی اس نے بھی بغاوت کے مقدمات بنائے، موجودہ بھی بنا رہی ہے، شہباز گِل کی تقریر کے بعد انوسٹی گیشن میں کسی سے رابطے کا پتہ چلا؟ کیا ابھی تک شہباز گِل کے خلاف کوئی متضاد مواد سامنے آیا ہے؟
بعدازاں ریمارکس مکمل کرتے ہوئے اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد شہباز گل کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور کر لی اور 5 لاکھ مچلکے جمع کروانے کے عوض رہا کرنے کا حکم دے دیا۔