لاہور: (ویب ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم ایک انقلاب کی جانب گامزن ہیں، چوروں کے ٹولے کو گھر بھیج کر عوامی حکومت لائیں گے۔ مصالحت سے متعلق سمجھتا ہوں جن کے پاس طاقت ہے انہیں فیصلہ کروانا چاہیے۔
امریکی میڈیا کو انٹرویو کے دوران میزبان نے سوال کیا کہ لانگ مارچ نیوٹرلز کے خلاف ہے یا حکومت کے خلاف ہے اس پر جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ یہ لانگ مارچ صرف اور صرف صاف اور شفاف انتخابات کے لیے ہے۔رول آف لاء طاقتور اور کمزور کو برابر کر دیتا ہے، ملک میں اگر طاقتور چوری کرے تو این آر او مل جاتا ہے تو کمزور بیچارہ جیل میں پستا ہے۔ اعظم سواتی اور شہباز گل جیسے لوگوں کو دوران حراست شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس پر ملک میں کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہے، یہ مارچ 26 سال پہلے کی تحریک کا تسلسل ہے۔
میزبان نے سوال پوچھا کہ اگر حکومت مارچ یا اپریل میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیتے ہیں تو کیا لانگ مارچ ملتوی کر دیں گے اس پر جواب دیتے ہوئے پی ٹی آئی چیئر مین کا کہنا تھا کہ الیکشن ابھی کروائیں ، اتنی دور کی بات نہیں۔
مصلحت سے متعلق پوچھے گئے سوال کہ جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ ہی ایک ایسا ادارہ ہے جو ثالثی کرا سکتا ہے کیونکہ حکومت کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، شہباز شریف کا حال دیکھ لیں ڈگی میں بیٹھ کر نیوٹرلز سے ملنے جاتا تھا، نواز شریف لندن میں بیٹھ کر فیصلے کر رہا ہے، زرداری اپنی طرف لگا ہوا ہے، ملک میں کوئی حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے، اسٹیبلشمنٹ نے تمام لوگوں کو اکٹھا کیا ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں جن کے پاس طاقت ہے انہیں فیصلہ کروانا چاہیے۔
انٹرویو کے دوران سوال کیا گیا کہ اگر انتخابات کا اعلان کروا دیا جاتا ہے اور پی ٹی آئی واضح برتری حاصل نہیں کرتی یا الیکشن ہروا دیئے جاتے ہیں تو اس پر کیا لائحہ عمل ہو گا، پی ٹی آئی چیئر مین کا کہنا تھا کہ اگر ملک میں صاف اور شفاف انتخابات نہیں ہوںگے تو انتشار ہو گا، انتشار تب ہوتا ہے جب کوئی الیکشن مانتا نہیں ہے، ہمارے دور میں کرکٹ کے دوران فیصلے من پسند ہوتے تھے تو انتشار ہوتا تھا، اب کیونکہ نیوٹرلز امپائرز ہیں تو سب فیصلے مانتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں پی ٹی آئی چیئر مین کا کہنا تھا کہ میرے دور حکومت میں ’وہ‘ کرپشن کو برا نہیں سمجھتے تھے اور نہ ہی احتساب کرنے کے لیے تیار تھے، میں 26 سال سے کہہ رہا ہوں کہ رول آف لاء کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرتی، میرا ’اُن‘ کے ساتھ ایک اختلاف احتساب پر جبکہ دوسرا اختلاف عثمان بزدار کو ہٹا کر علیم خان کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوانے پر تھا۔ باقی تمام جگہوں پر ہم ایک پیج پر تھے۔ اپنے دور حکومت میں احتساب نہیں کروا سکا، میں سمجھتا ہوں اگر انصاف ہو گا تو کرپشن ختم ہو گی۔ طاقتور قانون کے اوپر بیٹھا ہے اور نیب ہمارے نیچے نہیں کسی اور کے کنٹرول میں تھی۔ پھر میں کیسے احتساب کر سکتا ہوں لوگوں نے مجھے ووٹ احتساب کرنے کے لیے دیا تھا۔
ممکنہ طور پر گرفتاری کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے مزید کہا کہ میرا رد عمل کچھ نہیں ہو گا، میں تو پہلے بھی تیار تھا، مجھے گرفتار کر لیں لیکن عوام کا رد عمل بہت زبردست آیا جس کے باعث انہیں اپنا فیصلہ بدلنا پڑ گیا۔
ایک سوال کے جواب میں سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاک فوج کی بدنامی کا باعث نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز ہیں، جو ماضی میں انہوں نے بیانات دیئے ہیں، سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے بارے میں ان کے الزامات سب کے سامنے ہیں، میرے اور ان کے بیانات میں بہت فرق ہے، میں نے تنقید کی ہے تو صرف تعمیری کی ہے اور یہ صرف بہتری کے لیے ہے۔ میں اپنی فوج کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہوں۔ تنقید کے بغیر کوئی ملک، ادارہ اور انسان آگے بڑھ ہی نہیں سکتا۔ نواز شریف اور مریم نواز کی تنقید صرف اس بات پر ہوتی تھی کہ ہمیں کیوں نکالا، عدالتوں کو فیصلے کرنے پر کیوں مجبور کیا گیا۔ اور یہ صرف اپنے پیسے بچانا چاہتے تھے۔