لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ 30، پینتیس سال سے دیکھ رہا ہوں کہ افغان بارڈر ایک غیر محفوظ سرحد ہے جہاں کوئی بھی ادھر اُدھر آجا سکتا ہے۔ پاکستان کو بنے 70سال ہو گئے آج تک پاک افغان بارڈر کا ہی طے نہیں ہو سکا۔ افغانستان ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتا بلکہ کے پی کے صوبہ کو بھی اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ پاک بھارت بارڈر کی بھی 65 کی جنگ سے پہلے تک ایسی ہی صورتحال تھی لوگ بآسانی دونوں طرف آتے جاتے تھے۔ بھارت جاکر فلمیں دیکھنا عام معمول تھا۔ پاکستان کو افغان بارڈر حقیقی معنوں میں بند کرنا ہو گا اس وقت پاکستان جوکارروائیاں کر رہا ہے مجبوری کے عالم میں کر رہا ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہئے کہ پاک فوج، نیٹو اور افغان فوج مل کر دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کریں اوران کی بیخ کنی کریں۔چین بھی موجودہ صورتحال سے تنگ ہے۔ افغانستان میں امن کے بغیر خطہ میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ دہشتگردی کے اصل ٹھکانے پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان میں ہیں جہاں دہشتگردوں کو تربیت دی جاتی ہے۔ مشرف دور میں سرکاری وفد کے ہمراہ دلی میں ایک کانفرنس میں شرکت کی وہاں کے تاجر اور صنعتکاروں کو یہ کہتے سنا کہ آپ پاکستان سٹیل ملز سمیت تمام خسارے میں جانے والی صنعتیں اور اس کے گرد کی زمین ہمیں فروخت کر دے، ہمیں صرف پاکستان سے روٹ فراہم کیا جائے تا کہ ہم موٹر وے استعمال کر کے افغانستان کو سامان تجارت بھجوا سکیں۔ بھارت دراصل پاکستان کے ذریعے افغانستان اور پھر وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی چاہتا ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ بھارت پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لئے افغانستان کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ بھارتی کونسل خانے افغانستان میں ہیں۔ سینئر صحافی نے کہا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے حافظ سعید کے حوالے سے بڑی حیرت انگیز بات کی ہے۔ خواجہ آصف نے اس سے قبل بھی جنرل (ر) راحیل شریف کے سعودی عرب جانے کے حوالے سے بیان دیا اور پھر سینٹ میں اس سے مکر گئے تھے اورکہا تھا کہ مجھے غلط فہمی ہوئی تھی مکمل معلوماتحاصل نہ تھی۔ اب بھی حافظ سعید بارے بیان تو جاری کر دیا نجانے مکمل معلومات ہیں یا نہیں ہیں۔ ہم خواجہ آصف کو یہ یاد دلاتے ہیںکہ کتنے حافظ سعید نظر بند کرو گے، کراچی سے خیبر تک کروڑوں پاکستانی کشمیر کی آزادی کیلئے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔ کشمیر میں تو آج بھی بھارت کے خلاف آزادی کی جنگ پہلے سے زیادہ تیزی سے جاری ہے کیا یہ جنگ حافظ سعید یا ان کے کارکن کرا رہے ہیں بکہ ان کے مظفرآباد کے ٹریننگ کیمپس تو برسوں پہلے کے بند کرائے جا چکے ہیں۔ حافظ سعید تو اب خود اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا سیاسی حل ہونا چاہئے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ حکومت غیر ملکی دباﺅ پر بڑے بڑے فیصلہ کرنے جا رہی ہے۔ اس سے قبل کہ غیر ملکی آقاﺅں کے پاﺅں میں گر جائیں ان سے پوچھ تو لیں کہ حافظ سعید نے پچھلے 20 سال میں کہا گیا ہے۔ اگر کچھ کہا ہے تو ثابت کریں۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ پنجاب حکومت نے ہمیشہ رینجرز طلب کرنے سے اس لئے انکار کیا کہ پنجاب کے حالات کے پی کے اور سندھ میں نسبت بہتر چل رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب صرف لاہور، گوجرانوالہ، شیخوپورہ سمیت چند شہروں کا نام نہیں ہے۔ جنوبی پنجابکی صورتحال بڑی ابتر ہے وہاں بیروزگاری اتنی زیادہ ہے کہ لوگ صرف کھانا مل جانے کی آس میں اپنے بچوںکو مدارس میں داخل کرا دیتے ہیں۔ ان حالات میں دہشتگردوں کو وہاں سے بڑی تعداد میں بھرتی کیلئے لوگ مل جاتے ہیں جو مختلف علاقوں میں وارداتیں کرتے ہیں اور پھر واپس جا کر چھپ جاتے ہیں۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے جھوٹی انا کو بالائے طاق رکھ کر رینجرز کو بلانے کا بڑا اچھا فیصلہ کیا ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ سیہون شریف سانحہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ مزارات اصل میں دہشتگردوں کا ااسان ٹارگٹ ہوتے ہیں۔ میں نے پوری زندگی بڑے بڑے مزارات پر بھی واک تھرو گیٹس نہیں دیکھے، سکیوورٹی نام کی کوئی چیز وہاں دکھائی نہیں دیتی۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کا فرض ہے کہ سکیورٹی آلات پر سبسڈی دیں تا کہ عوام خود اپنی حفاظت کیلئے یہ آلات سستے داموں خرید سکیں۔ تمام ذی شعور عوام سمجھتی ہے کہ دہشت گرد حملوں کا معاملہ صرف کرکٹ کا فائنل نہیں بلکہ پاکستان کو دنیا بھر میں تنہا کرنے کی سازش کی کڑی ہے۔ برسوں قبل غیر ملکی چینلز پر یہ اعلانات خود سنے ہیں کہ عوام فلاں فلاں ملکوں میں اپنی ذمہ داری پر جائیں پاکستان کا نام خاص طور پر لے کر کہا جاتا تھا کہ وہاں تو بالکل بھی سیاحت کیلئے کوئی نہ جائے انتہائی خطرناک جگہ ہے، حالانکہ پاکستان میں سیاحت کے حوالے سے ایک سے ایک بڑھ کر خوبصورت مقامات ہیں، دنیا کا خوبصورت اور بلند ترین پہاری سلسلہ یہاں ہے۔ بدقسمتی ہے کہ آج تک کسی حکومت نے سیاحت کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیا۔