تازہ تر ین

فوجی عدالتوں میں توسیع ضروری ، سیاسی جماعتیں مزید وقت ضائع نہ کریں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کےساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزبہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ بارہا کہہ چکا ہوں کہ میڈیا کو موجودہ حالات میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور عوام کو کسی قسم کی افواہوں پر کان نہیں دھرنے چاہئیں۔ حکومت کے ترجمان کو بھی کسی اہم معاملہ پر عوام کو مسلسل باخبر رکھنا چاہیے اس سے بھی افواہوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ گزشتہ روز ڈیفنس میں دھماکہ ہوا جس کے بعد افواہ سازی کا بازار گرم ہوگیا۔ شہر میں خوف و ہراس پھیل گیا سکولز و کاروباری ادارے بند ہوگئے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ فوجی عدالت کے بارے میں مولانا فضل الرحمان کے تحفظات دور ہونا چاہئیں تاہم میرے نزدیک اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہمارے سیاسی رہنماﺅں کی کام کرنے کی نیت بھی ہے یا نہیں۔ ارکان اسمبلی و سینٹ کو اگر اپنی مراعات یا تنخواہیں بڑھانا ہوں تو ایک گھنٹہ کے اندر متفقہ طور پر بل منظور کر لیتے ہیں لیکن کوئی ملکی سنجیدہ معاملہ ہو تو غیرسنجیدگی کا مظاہرہ نظر آتا ہے کبھی ایک مو¿قف کبھی دوسرا مو¿قف اپنایا جاتا ہے کبھی ایک روٹھ جاتا ہے تو کبھی دوسرا اٹھ کر چلا جاتا ہے۔ فوجی عدالتیں اس لئے بنائی گئی تھیں کہ سول عدالتیں دہشتگردوں کو سزا دینے میں ناکام رہی تھیں۔ تمام سیاسی جماعتوں نے پچھلی بار بادل نخواستہ ہی سہی منظوری دیدی تھی اور فوجی عدالتیں قائم ہو گئی تھیں لیکن ان کا بھی خاطرخواہ فائدہ نہ ہو سکا کہ انہوں نے تمام مقدمات میں دہشتگردوں کو سزائیں سنا دیں لیکن صرف 12 کو پھانسی دی گئی اور باقی ڈیڑھ سو کے قریب دہشتگردوں کو پھانسی پر آج تک عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ کیا یہ سب مذاق نہیں ہے۔ اب پھر فوجی عدالتوں کے قیام کا معاملہ تاخیر کا شکار ہو رہا ہے جس کی وجہ صرف اور صرف غیرسنجیدگی ہے۔ پیپلز پارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعت جو 3 بار اقتدار میں رہی کا سب سے بڑا مسئلہ ایان علی کی رہائی تھا۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں وزیراعظم اگر ترکی نہ بھی جاتے تو کیا قیامت آ جاتی وہ بھی ملک کو اتنی گھمبیر صورتحال میں چھوڑ کر ترکی جا بیٹھے ہیں حالانکہ معاہدوں پر دستخط ان کا نمائندہ بھی کر سکتا تھا۔ وزیراعظم کا کام تھا کہ فوری اے پی سی بلاتے اور ایک ہی نشست میں تمام معاملات کو نمٹایا جاتا۔ پاکستان اس وقت اندرونی و بیرونی دہشتگردی کا شکار ہے اور سیاسی رہنما اور ادارے متحد ہونے کے بجائے بٹے نظر آتے ہیں۔ سینئر صحافی نے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ الطاف حسین کی پشت پناہی سی آئی اے اور ایم آئی سکس کر رہی ہے۔ دشمن طاقتوں نے پاکستان کو جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کو تبدیل کرنے کےلئے فرنٹ بنا رکھے ہیں، آزادی اظہار کے نام پر جموریت کے نام نہاد دعویدار پاکستان سے بھاگے مجرموں، بھگوڑوں اور فسادیوں کو پناہ دیتے ہیں۔ الطاف حسین کے معاملہ پر برطانیہ کا رویہ شرمناک ہے۔ برطانیہ کو جمہوریت کا چیمپئن قرار دینے والوں کو کہتا ہوں کہ اس نے آدھی دنیا پر قبضہ ووٹوں سے نہیں بلکہ غاصبانہ طریقوں سے کیا تھا۔ سازشیں کر کے مقامی لوگوں کو لڑانا اور قبضے کرنا ان کا وطیرہ تھا۔ امریکہ اور برطانیہ پاکستان کے بھگوڑوں کو پناہ دیتے ہیں۔ انٹرپول جیسے نام نہاد عالمی ادارے فراڈ ہیں جن کو عالمی طاقتیں اپنے مقاصد کےلئے استعمال کرتی ہیں۔ سینئر صحافی نے کہا کہ پاکستان میں سرکاری مشینری تباہ ہو چکی، ادارے غیرفعال ہو چکے ہیں۔ پنڈی میں منائی جانے والی بسنت اسی کی تازہ شکل ہے۔ ملک ایسے تو نہیں چلتے کہ لاہور کی حد شاہدرہ تک تو پتنگ بازی پر پابندی ہو اور اس سے آگے کوئی روک ٹوک نہ ہو۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ دبئی جانے والی ہر فلائٹ میں لڑکیاں یہاں سے لے جائی جاتی ہیں جن کے صرف کاغذی نکاح ہوتے ہیں اور یہ مذموم دھندہ دھڑلے سے جاری ہے۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain