لاہور (خصوصی رپورٹ) گزشتہ دنوں محکمہ ہیلتھ کے عملے نے سلاٹر ہاﺅس کے مذبح خانوں اور دیگر حالات کا جائزہ لیا تو بڑی خوفناک صورتحال سامنے آئی اور یوں لگا کہ جیسے ہم مردار خور قوم کی صورتحال اختیار کرتے جارہے ہیں جن لوگوں کے ہاتھ یہ سارا نظام ہے انہیں اس سے کچھ واسطہ نہیں کہ مردہ‘ بیمار اور موذی مرض میں مبتلا جانوروں کا گوشت کھانے سے لوگوں کا کیا حال ہوگا؟ انہوں نے تو وہاں ریٹ مقرر کر رکھے ہیں کہ بیمار اور لاغر گائے‘ بھینس‘ بکری کے گوشت پر سرکاری ٹھپہ لگانے کے کتنے پیسے ہوں گے۔ حاملہ گائے‘ بھینس کو ذبح کرنے کا کیا معاوضہ ہوگا اور مردہ جانور کے گوشت پر ٹھپہ لگانے کے نرخ کیا ہوں گے؟ یہ مافیا سب اس لئے کررہا ہے کیونکہ اسے پتہ چل گیا ہے کہ مردہ ضمیر قوم مردہ جانوروں کا گوشت بھی بڑی آسانی سے ہڑپ کر جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک میں جتنے بھی سلاٹرہاﺅسز ہیں وہاں پر اس مافیا کا راج ہے جن کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ انہیں صرف اتنا معلوم ہے کہ آج اتنی رقم ”اوپر“ پہنچانی ہے اس کے بعد اگر وہ مردہ جانور بھی ذبح کرکے عوام کو کھلا دیں گے تو سب چلے گا۔ ملک میں قائم سلاٹر ہاﺅس کے بارے میں قواعد و ضوابط بنائے گئے ہیں جس میں ذبح کے وقت جانور کی صحت کے معیار بارے جن کی خلاف ورزی انسانی قتل کے مترادف ہے مگر ان پر کسی طرح سے بھی عمل نہیں ہورہا اور سلاٹر ہاﺅسز کے باہر وہاں کا عملہ مہریں لے کر پہلے سے تیار بیٹھا ہوتا ہے جو اپنے ریٹس پر فراخدلی سے فروخت کئے جانے والے گوشت پر پاس کی مہر لگا کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا سرکاری مشینری کے ذمہ دار افسران اور نچلے عملے کی ملی بھگت سے ہورہا ہے۔ یہ کتنے ظلم کی بات ہے کہ ایک تو بکرے اور گائے کے گوشت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ دوسری طرف اس قیمت پر بھی انہیں مردار کھلایا جارہا ہے۔ سلاٹر ہاﺅسز میں ہر روز جتنے بھی جانور ذبح کے لئے لائے جاتے ہیں ان میں 80 فیصد صحت کے معیار پر پورا نہیں اترتے اکثر بھینسوں کو ٹی بی ہوتی ہے۔ جانوروں کو گل گھوٹو جیسی دیگر بیماریاں لاحق ہوتی ہیں ان کے جسموں پر بڑی بڑی گلٹیاں اورزخم ہوتے ہیں۔ ان زخموں پر مکھیاں بھنبھا رہی ہوتی ہیں زخموں سے خون رس رہا ہوتا ہے اس کے علاوہ سانس کی خطرناک بیماریاں بھی انہیں لاحق ہوتی ہیں مگر وہں پر موجود کسی ڈاکٹرنے کبھی ایک بھی جانور کو مسترد نہیں کیا وہاں مردہ جانور بھی ان نام نہاد ڈاکٹروں کے ہاتھوں سے گوشت کے لئے پاس ہوکر آتا ہے۔ ضلعی حکومت کے سلاٹر ہاﺅسز کے لئے جو قوانین اور قواعد و ضوابط بنا رکھے ہیں اس میں یہ بھی شامل ہے کہ سلاٹر ہاﺅس کا ماحول صاف ستھرا‘ وہاں کسی قسم کی گندگی نہیں ہو گی مگر ہمارے ہاں سلاٹر ہاﺅسز میں ذبح کئے جانے والے جانوروں کی آلائشوں کا وہ عالم ہوتا ہے کہ کسی بھی انسان کا وہاں ایک لمحہ بھی کھڑا ہونا محال ہوتا ہے۔ پھر جانوروں کو ذبح کے وقت جس طرح ان کی نامکمل شہ رگ کاٹ کرانہیں تڑپنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے اور جس اذیت کے ساتھ وہ جان دیتے ہیں اس پر تو باقاعدہ انسداد بے رحمی ایکٹ کے تحت ان پر نہ صرف مقدمہ ہو سکتا ہے بلکہ سنگین سزا بھی ہو سکتی ہے‘ مگر ان عناصر کو سزا اس لئے نہیں ہوتی کہ انہوں نے اوپر تک منتھلی پہنچائی ہوتی ہے اور جس اتھارٹی نے کارروائی کرنا ہوتی ہے وہ روپے کی اتھارٹی سے متاثر ہو کر اپنی زبان بند کر چکا ہوتا ہے۔ سلاٹر ہاﺅسز کیلئے جو قوانین وضع کئے گئے ہیں وہ بڑے صاف اور واضح ہیں۔ کسی بھی قصاب کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنے طور پر گھر میں لاغر‘ بیمار جانور ذبح کر کے ان کا گوشت فروخت کرے مگر یہ سب دیدہ دلیری سے ہو رہا ہے۔ قصاب اپنی مرضی سے سستے‘ بیمار اور مضر صحت گوشت والے جانور خرید کر گھروں میں لے آتے ہیں اور وہیں صبح صبح ذبح کر کے اور جعلی مہریں لگا کر دکان کے باہر لٹکادیتے ہیں جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بیمار اور لاغر جانوروں کا گوشت کھایا جائے تو اس سے نہ صرف مہلک بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں بلکہ جانوروں کو لگنے والی بیماریاں انسانوں کو بھی منتقل ہو جاتی ہیں جیسا کہ سطور بالا میں لکھا گیا ہے کہ بھینس واحد جانور ہے جس کو ٹی بی کا مرض لاحق ہو جاتا ہے اور ایسی بھینس کا گوشت کھانے والے افراد بھی اس بیماری سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ ان بیمار جانوروں کا گوشت زیادہ تر بڑے بڑے ہوٹلوں اور دکانوں کو فراہم کیا جاتا ہے جہاں اشرافیہ اور امراءیہی بیمار جانوروں کا گوشت شیف کی کوکنگ مہارت کے باعث مزے لے لے کر کھاتے ہیں اور اپنے رب کا شکر بجا لاتے ہیں۔ ایک اخباری جائزے کے مطابق پاکستان میں فروخت ہونے والا 80فیصد گوشت مضر صحت اور حفظان صحت کے اصولوں کی نفی کرتا ہے۔ اس سے انسانی معدے کے سنگین امراض پیدا ہو رہے ہیں حتیٰ کہ معدے میں السر اور سانس کی نالیوں میں بھی انفیکشن ہو جاتا ہے۔ سینے میں جلن اور تیزابیت بھی اس کے سبب ہیں مگر ایسے عناصر کو کوئی چیک کرنے والا نہیں اور وہ ہوٹل جہاں یہ گوشت سستے داموں خریدا جاتا ہے وہ صرف مال بنانے کی خاطر اپنی زبانیں بند رکھتے ہیں۔ مٹن کے علاوہ جو چکن ہم کھاتے ہیں اور لاکھوں برائلر مرغیاں جو ہم اپنے پیٹ کے دوزخ میں اتارتے ہیں اگر ان مرغیوں کی صحت اور حالت ذبح ہونے سے پہلے دیکھیں تو کبھی ان کا گوشت نہ کھائیں مگر ہم چونکہ لکڑ ہضم پتھر ہضم جیسا معدہ رکھتے ہیں اس لئے ہمیں کوئی مسئلہ پیش نہیں آتا۔ سو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دوسرے ممالک میں مضر صحت اور ملاوٹ شدہ اشیاءکا کاروبار کرنے والوں کو سزائے موت دی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں ”موت کا دھندا“ کرنے والوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بس یہی فرق ہے ہم میں اور باہر کے معاشرے میں کہ جو جرم مغربی معاشرے کے نزدیک قابل دست اندازی قانون ہے ہمارے ہاں اس جرم کو چالاکی اور ہوشیاری کا نام دیا جاتا ہے۔ پنجاب کے بیشتر اضلاع میں گدھوں کا گوشت بھی فروخت ہوتا رہا۔ مہینوں قصاب اپنی چھری کے ظلم سے لوگوں کو بے بس کرتے دکھائی دیتے رہے۔ بدقسمتی ان قصابوں کی‘ وہ پکڑے گئے اور ان پر پرچے ہوئے‘ جیلوں کی ہوائیں بھی کھائیں مگر پیسوں کی چمک سے وہ پھر قانون سے ہاتھ کر گئے۔ اس بڑے گھناﺅنے جرم سے چھٹکارے کیلئے ہمیں کچھ کرنا ہو گا۔
