حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی پاکستان پیپلزپارٹی نے الیکشن لڑنے کے لیے ن لیگ کو اپنے حریف کے طورپرپیش کرتے ہوئے اس پر چروکے لگانا شروع کردیا تھا۔نوازشریف کی واپسی پریہ سلسلہ تیز ہوگیا۔نوازشریف کی واپسی کوکبھی سمجھوتہ کہا تو کبھی واپسی کو ڈیل کا نتیجہ قراردیتے رہے۔اب کچھ دنوں نے نوازشریف کو لاڈلہ اور ابھی سے ہی سلیکٹڈ کہنے کا سلسلہ شروع کردیا تھا ۔اس کے جواب میں ن لیگ کی طرف سے ایک ہی بات کہی جاتی رہی کہ الیکشن کا موقع ہے بلاول ہوں یا پیپلزپارٹی کے دوسرے رہنما انہوں نے کچھ تو کہنا ہے اس لیے کوئی بات نہیں ۔مسلم لیگ ن نے پیپلزپارٹی کی ان شرارتوں کا جواب ایم کیوایم سے ہاتھ ملاکردے دیا ہے۔
مسلم لیگ ن بارے یہ کہا جارہا ہے کہ وہ اگلی حکومت بنانے کے لیے صرف پنجاب پر مکمل انحصار کرنے کی بجائے بلوچستان میں ’’باپ‘‘سے رشتہ جوڑنے اور کے پی میں مولانا سے تجدید تعلقات کرنے کی حکمت عملی بناچکی ہے اورآمدہ ہفتے نوازشریف کی اس صف بندی کے لیے بات چیت کسی نتیجے پر پہنچ جائے گی۔میں سندھ میں ایم کیوایم اور مسلم لیگ ن کے اتحادکے نتائج پرغورکرہی رہا تھا کہ سندھ سے جناب ایازلطیف پلیجوصاحب کا طویل پیغام موصول ہوا۔ایازلطیف پلیجو صاحب قومی عوامی تحریک کے سربراہ اورسندھی قوم پرست رہنماہیں۔ سندھ کے باسیوں کے حقوق کے لیے ایاز لطیف کی جدوجہد کی ایک طویل تاریخ ہے۔وہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی مزاحمت کرنے والے لیڈر ہیں ۔ان کا پیغام پیپلزپارٹی کی پندرہ سالہ حکمرانی کے نتیجے میں سندھ کو پہنچنے والے معاشی اورسماجی نقصان بیان کررہا ہے۔ایازصاحب لکھتے ہیں کہ اگرسندھ میں ایک بار پھر پیپلزپارٹی کی حکومت بنائی گئی تو۔۔
1۔سندھ کے پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت کی جانب سے یہ سمجھا جائے گا کہ پیپلز پارٹی کے ہاتھوں سندھ میں پندرہ سالہ کرپشن، لوٹ مار، تباہی، غربت، افلاس، بیروزگاری اور بدترین گورننس کے سسٹم کی اس ریاست، پارلیمان، وفاق، اداروں، عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو کوئی فکر نہیں۔ وہ یا تو مکمل لاتعلق ہیں یا بذات خود پیپلز پارٹی کے سہولتکار ہیں.
2۔سندھ کی لوگ سمجھیں گے کہ صرف پنجاب کی اندرونی سیاسی لڑائی ،پنجاب اور کے پی کے کی نشستوںکی تعداد ہی وفاق اور ریاست کی لیے معنی رکھتے ہیں۔ سندھ دراصل ملکی سیاسی ایجنڈے کا 15 سال سے حصہ ہی نہیں ہے۔
3۔سندھ کے عام لوگوں،دیگرسیاسی جماعتوں، اتحادوں، قوم پرست اور مذہبی جماعتوں سے جڑے ہوئے لوگوں کو یہ پیغام دے دیا جائیگا کہ، سندھ میں صرف دو ہی آپشنز ہیں کہ یا پیپلز پارٹی میں شامل ہوجائیں یا پاکستان کی وفاقی سیاست سے مکمل لاتعلقی کرکے کوئی اور راستہ اختیار کرلیں۔
4۔نیب، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن، نگران حکومتوں، اداروں اور عدلیہ کے جھکائو کی وجہ سے کسی بھی کرپٹ وزیر، افسر یا رکن اسمبلی کو کوئی سزا نہ ملنے سے لوگ سمجھ چکے ہیں کہ کرپشن کے خلاف بیانات اور اعلانات صرف سراب اور دکھا وا ہیں۔ پیپلز پارٹی کی کرپشن سے کسی کو کوئی مسئلہ نہیں۔کچھ لوگ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ سندھ کو معاشی طور پر مکمل تباہ و برباد کرنا ہی درحقیقت اصل ایجنڈا ہے۔
5۔یہ سمجھا جائے کہ پاکستان بحیثیت ایک ملک کے مکمل طور پر اپنے ایک اہم حصے سندھ کی ترقی، گورننس، خوشحالی، میرٹ اور شفافیت سے لاتعلق ہے؟
6۔یہ تاثر عام ہوجائے گا کہ گذشتہ پندرہ سال سے الیکشن قریب آتے ہی دکھاوے کے لیے چند ماہ سیاسی جوڑ توڑ کرنے کے بعد، آخری لمحوں میں اچھی آفر ملنے پر ڈیل اور سودا ہمیشہ پیپلز پارٹی سے ہی کرلیا جاتا ہے اس لیے سندھ سطح کی سیاسی پیش قدمی، اتحادوں، سیٹ ایڈجسٹمٹ اور وفاقی سیاست کرنے کی کوئی افادیت نہیں ہے۔
7۔بیوروکریسی، عدلیہ، وڈیروں، صنعت کاروں اور سول سوسائٹی کو یہ صاف پیغام جائے گا کہ سندھ میں اگر رہنا ہے تو جیے زرداری کہنا ہے اور پیپلز پارٹی کے سب جائز و ناجائز کام مسلسل کرتے رہناہے کیونکہ سندھ کے حقیقی مطلق العنان بادشاہ وہی ہیں۔
8۔بین الاقوامی طاقتوں، پڑوسی ممالک اور عالمی اداروں کو یہ واضح اور کلیئر پیغام جائے گا کہ باقی تینوں صوبوں میں تو کوئی نہ کوئی تبدیلی آتی رہے گی، مگر سندھ کے حکمران وہی کے وہی رہیں گے اس لیے ہر حال میں اور ہر شرط پر پیپلز پارٹی کے ساتھ جماعتی اور ذاتی سطح کے تعلقات بہتر رکھے جائیں۔
9۔نواز لیگ اور پی ٹی آئی کا ماضی کے اقتدار کے دوران سندھ سے مکمل لاتعلقی اور پیپلز پارٹی کی خوشنودی کے لیے مستقل چشم براہ ہونے سے یہ پیغام دیا جا چکا ہے کہ ان کے اقتدار میں فیصلہ سازی ، مشاورت اور ترقیاتی منصوبوں میں سندھ کے عوام کی خواہشات، خدشے اور سندھ کی ترقی اور گورننس کوئی معنی نہیں رکھتے۔ وہ صرف چند وڈیروں یا حلقوں کی سیاست میں دکھاوے کے لیے عارضی دلچسپی لے کر پھر سندھ کو پیپلز پارٹی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔
10۔سندھ کا بیروزگاری، اقربا پروری، مہنگائی، انتہاپسندی، دہشتگری اور غربت کا مارا ہوا برباد شدہ نوجوان یہ سمجھنے پر مجبور کر دیا جائیگا کہ سندھ میں میرٹ، روزگار، تعلیم، امن، برابری، صنعتکاری، زراعت اور گورننس کی بہتری کی اب کوئی امید باقی نہیں ہے۔
11۔سندھ کے الیکٹیبلز جن کو کبھی پیپلز پارٹی، کبھی پی ٹی آئی اور کبھی نون لیگ میں شمولیت کے اشارے دیے جاتے ہیں، وہ اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ کرپشن کے ذریعے کھرب پتی بننے کا سب سے مفید اور آسان راستہ پیپلز پارٹی میں شامل ہونا ہے۔
12۔سندھ کی دیہی نشستیں حسب سابق پیپلز پارٹی سے جڑے ہوئے جاگیرداروں، پیروں، وڈیروں اور سرداروں کے حوالے کردی جائیں گی، سندھ کے دارالحکومت اور پاکستان کے سب سے بڑے کاروباری مرکز کراچی کے نتائج میں جس طرح 2018 کے الیکشن میں انجینئرنگ کرکے مخصوص لوگوں کو جتوایا گیا، اس دفعہ کسی اور کو جتوا دیا جائے گا مگر کراچی کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔
13۔سندھ کی مڈل کلاس کی وفاقی سیاست کرنے والی جماعتوں کی قیادت، مسلسل الیکشن لڑنے اور دھاندلیوں سے ہرا دیے جانے والے صاف، شفاف اورقابل امیدواروں کو یہ پیغام دے دیا جائے گا کہ آپ جیسے باصلاحیت اور ایماندارلوگوں کے لیے سندھ اسمبلی اور وفاقی پارلیمان میں کوئی جگہ نہیں۔ یہ ایوان صرف پندرہ سال کے لیے ہی نہیں بلکہ پچیس تیس سال تک صرف پیپلز پارٹی کے لیے مخصوص کردیے گئے ہیں۔
14۔خواتین، بچوں، کسانوں، مزدوروں، اقلیتوں، نچلے متوسط طبقے اور ملازمت پیشہ افراد کی گذشتہ پندرہ سال سے سندھ میں جو درگت بنائی گئی ہے، ان کے وسائل کو جس طرح لوٹا گیا ہے، سرکاری محکموں کو جس طرح کرپشن، سفارش، لوٹ مار اور اقرباپروری کے مراکز بنا دیا گیا ہے، اس سے معاشرے کے یہ کمزور طبقات ملکی حالات سے مکمل طور پر مایوس اور لاتعلق ہوجائیں گے۔
والسلام
ایاز لطیف پلیجو
سربراہ قومی عوامی تحریک،حیدرآباد
ایازصاحب کے یہ چودہ نکات ان کے خدشات ہیں جن کی پیپلزپارٹی نفی کرتی ہے ۔ اب پھر الیکشن کی آمد ہے تو باقی ملک کی طرح سندھ میں بھی نئی صف بندیوں کی امیدہے۔پہلے مرحلے میں تو مسلم لیگ ن اور ایم کیوایم نے ہاتھ ملایا ہے ۔ ن لیگ نے سندھ میں اپنا پارٹی صدر بھی تبدیل کیا ہے اور بشیر میمن صاحب کو یہ ذمہ داری سونپی ہے۔ میمن صاحب کا اپنا تعلق اندرون سندھ سے ہے اور وہ سندھ کی باقی جماعتوں سے رابطے بھی کررہے ہیں ممکن ہے سندھ میں پیپلزپارٹی کے خلاف ایک وسیع تر انتخابی اتحاد بن جائے ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو ایازلطیف پلیجو اور باقی قوم پرست جماعتوں کو بھی اس کا حصہ بن کرپیپلزپارٹی کو ٹف ٹائم دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ممکن ہے جن خدشات کا ایاز لطیف پلیجو صاحب اظہار کررہے ہیں وہ اس الیکشن کے مختلف نتائج کی صورت میں تبدیل ہوجائیں۔