انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے معاملے سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ پی ٹی آئی کی توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کر رہا ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی کیس کی سماعت کر رہی ہیں۔
سماعت کے آغاز میں وکیل پی ٹی آئی لطیف کھوسہ روسٹرم پر آگئے اور پٹیشن عدالت میں پڑھ کر سنائی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شعیب شاہین کہاں ہیں؟ اور کہا کہ شعیب شاہین آپ روسٹرم پر آجائیں یہ آپ کی درخواست تھی۔
دوران سماعت لطیف کھوسہ کے ساتھ ”سردار“ ہونے پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرداری نظام ختم ہوچکا ہے یہ سردار نواب عدالت میں نہیں چلے گا۔
اس کے بعد لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ لیول پلیئنگ فلیڈ صحت مندانہ مقابلے کیلئے ضروری ہے۔
جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ توہین عدالت کا کیس ہے یہ کوئی نئی پیٹیشن نہیں ہے، الیکشن کمیشن نے جو توہین کی آپ کے مطابق وہ بتائیں، الیکشن کمیشن نے آپ کو آرڈر کیا دیا؟
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں الیکشن کمیشن نے کچھ آرڈر نہیں دیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ نے اتنے لوگوں کو توہین عدالت کیس میں فریق بنایا، آپ بتائیں کس نے کیا توہین کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں بتائیں آپ ہم سے چاہتے کیا ہیں، اب آپ تقریر نہ شروع کر دیجیے گا، آئینی اور قانونی بات بتائیں ہر کوئی یہاں آکر سیاسی بیان شروع کردیتا ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آئی جی اور چیف سیکریٹریز کا الیکشن کمیشن سے کیا تعلق ہے۔
جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارے امیدواروں کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ثبوت کیا ہیں ہمیں کچھ دکھائیں۔
جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ میں نے ساری تفصیل درخواست میں لگائی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ توہین عدالت کیس میں آپ صرف الیکشن کمیشن کو فریق بنا سکتے تھے، آئی جی اور چیف سیکریٹریز کو نوٹس بھیجا تو وہ کہیں گے ہمارا کوئی تعلق ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ انفرادی طور پر لوگوں کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں تو الگ درخواست دائر کریں، کسی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ہیں تو اپیل دائرکریں۔
اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہماری شکایت پر صرف صوبوں کو ایک خط لکھ دیا، کیا الیکشن کمیشن صرف ایک خط لکھ کر ذمہ داریوں سے مبرا ہو گیا۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ توہین عدالت کے سکوپ تک رہیں، یہ بتائیں ہمارے 22 دسمبر کے حکمنامہ پر کہاں عملدرآمد نہیں ہوا، الیکشن کمیشن نے تو 26 دسمبر کو عملدرامد رپورٹ ہمیں بھیج دی، مُجھے تو لگتا ہے کہ پاکستان میں الیکشن ہونے نہیں دیے جا رہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں اپیل کرنے کیلئے آراو آرڈرز کی نقل تک نہیں مل رہی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ آپ کے کتنے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے، آپ نے لکھا سارا ڈیٹا سوشل میڈیا سے لیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جس کے بھی کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے وہ اپیل کرے گا، بات ختم۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ تین دن تک آرڈر کی کاپی نہیں ملی، اپیل کہاں کریں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ نے لوگوں کے نام کی جگہ میجر فیملی لکھا ہوا ہے۔
جس پر لطیف کھوسہ نے بتایا کہ میجر طاہر صادق کا ذکر ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں ہم الیکشن کمیشن کا کام کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آر او کے فیصلے کی کاپی نہیں ملتی تو کاپی کے بغیر ٹربیونل میں درخواست دیں، ہم کیسے دوسرے فریق کو سنے بغیر آپ کی اپیل منظور کر لیں، ہم کیسے کہہ دیں کہ فلاں پارٹی کے کاغذات منظور کریں اور فلاں کے مسترد؟ آپ بتائیں ہم کیا آرڈر پاس کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتیں الیکشن کیلئے ہر سیاسی جماعت کے پیچھے کھڑی ہیں، آپ ٹربیونل میں اپیلیں دائر کریں اس کے بعد ہمارے پاس آئیں تو سن لیں گے۔
اس کے بعد عدالت نے الیکشن کمیشن حکام کو روسٹرم پر بلا لیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ٹربیونل میں اپیل دائر کرنے کا وقت کب تک ہے؟ جس پر ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ آج آخری دن ہے۔
چیف جسٹس نے جواباً کہا کہ کھوسہ صاحب ٹربیونل جائیں پھر یہاں کیا کر رہیں ہیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہماری شکایت پر الیکشن کمیشن نے تمام صوبوں کے آئی جیز کو ہدایات دیں، سارے آئی جیز کا اس لیے اس کیس سے تعلق ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی شکایات کی کاپی کہاں ہے؟ جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں نے شکایات کی کاپی ساتھ نہیں لگائی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پھر الیکشن گزر جائیں گے تو کاپی لگا لیجیے گا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے کتنے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے؟ آپ کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کا بتا رہے ہیں منظوری کا بھی تو بتائیں، کیا پی ٹی آئی کے پاس منظوری یا مسترد ہونے کا ڈیٹا نہیں؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ نے درخواست میں میجر فیملی، میجر فیملی لکھ دیا ہے کیا کوئی میجر انتخاب لڑ رہا ہے؟
لطیف کھوسہ نے کہا کہ صرف ایک سیاسی جماعت کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو رہے ہیں۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مائیک آپ کی جانب موڑ دیتے ہیں آپ پی ٹی آئی کی سیاسی تقریر کر لیں، آپ ہر بات کے جواب میں سیاسی جواب دے رہے ہیں، یہ قانون کی عدالت ہے، آپ اپنی توہین عدالت کے مرتکب ہونے کا الزام آئی جی پر لگا رہے ہیں، انتخابات آئی جی،چیف سیکیریٹریز یا سپریم کورٹ نے کرانے ہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ہر ہائیکورٹ میں الیکشن ٹربیونل بن چکے وہاں جائیں، بارہا کہہ چکے کہ عدالتیں جمہوریت اور انتخابات کیلئے ہر سیاسی جماعت کے پیچھے کھڑی ہیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا آپ مجھے بھی سن لیں میں 55 سال سے وکالت کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے 22 دسمبر کے حکم پر 26 دسمبر کومفصل عملدرآمد رپورٹ جمع کرائی ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی رپورٹ دیکھنے کے لیے کل تک کا وقت دے دیں۔
جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم کیا روز آپ کے کیس سنتے رہیں گے، عدالت کوئی اور کام نہ کرے؟
چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ میں کہا کہ اکھاڑا نہیں یہ عدالت ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ صوبائی الیکشن کمیشن کا خط بھی تو دیکھیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صوبائی الیکشن کمیشن نے خط 24 دسمبر کو لکھا جبکہ الیکشن کمیشن نے عملدرآمد رپورٹ 26 کو جمع کرائی، الیکشن کمیشن نے 26 دسمبر کے بعد کچھ کیا ہو تو بتائیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ وڈیو لگانے کی اجازت دیں، پوری دنیا نے میڈیا پر دیکھا جو پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے نہیں دیکھا کیونکہ میں میڈیا نہیں دیکھتا۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے عملدرآمد رپورٹ میں وہی خط لگائے جو ہماری درخواست میں بھی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے اپنی درخواست میں کوٸی بھی ایک مخصوص الزام نہیں لگایا، آپ لکھ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن پابند ہے صاف و شفاف الیکشن کا، ہم کہتے ہیں ہاں، آپ نے 2013 کے الیکشن میں بھی الزامات لگائے، عدالت نے تب بھی وقت ضاٸع کیا اور کوٸی ٹھوس الزام نہ نکلا۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ 35 پنکچر والی بات اسی عدالت میں ہوٸی تھی، عدالت نے کہا تھا کہ آرگناٸز دھاندلی نہیں ہوٸی، اُس معاملے کا آج کےحالات سے کوٸی موازنہ نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر آپ نے ہی تعینات کیا تھا ہم نے نہیں، مسٸلہ یہ ہے کہ کوٸی بھی اپنی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، ہمارا 22 دسمبر سے سخت کوٸی اور آرڈر نہیں ہوسکتا، آپ نے اس کے بعد الیکشن کمیشن کو کوٸی شکایت کی ہو تو بتا دیں۔
جسٹس میاں محمد علی مظہر نے الیکشن کمیشن حکام سے استفسار کیا کہ آپ انییں لیول پلینگ فیلڈ دے رہے ہیں؟ جس پر ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے نے جواب دیا کہ ان کی ہر شکایات کو ہم نے متعلقہ اتھارٹی کو بھیجا جہاں قانون کے مطابق اس پر فیصلے ہوئے۔
لطیف کھوسہ کا کہناتھا کہ تاریخ کی بدترین پری پول دھاندلی ہو رہی ہے، آر اوز دفتر کے باہر سے لوگوں کو اُٹھا لیا جاتا ہے، اس معاملے پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، میرے اپنے بیٹے کو گرفتار کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا بنیادی الزام کس پر ہے صرف پنجاب کا مسئلہ ہے، کیا پنجاب کا ایڈووکیٹ جنرل موجود ہے۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب موجود نہیں ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے آئی جی کے خلاف الیکشن کمیشن کو کارروائی کے لیے لکھا؟
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم نے نہیں ان کے اپنے صوبائی الیکشن کمیشن نے خط لکھا کہ عمل نہیں ہو رہا۔
جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کا اپنا صوبائی الیکشن کمیشن لکھ رہا ہے اس پر آپ کو ایکشن نہیں لینا چاہیے تھا۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 8 جنوری تک ملتوی کردی۔