ایران نے جنوب مشرقی صوبے میں 9 پاکستانی باشندوں کے قتل کے واقعے کی تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ملک ’دشمنوں‘ کو اپنے برادرانہ تعلقات کو نقصان نہیں پہنچانے دیں گے۔
قتل کیے جانے والے پاکستانیوں کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب سے بتایا جاتا ہے جو سیرکان کے علاقے میں موٹر گیراج میں کام کرتے تھے۔
پاکستان نے ایرانی شہر سراوان میں پچھلے ہفتے ایرانی میزائل حملے کے جواب میں میزائل حملے کیے تھے، جس میں پاکستان نے بلوچستان میں سرگرم علیحدگی پسند مسلح تنظیموں کے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔
ایک ایسے وقت میں اس افسوس ناک سانحے کا رونما ہونا، جب کہ ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ معمول کے تعلقات کی بحالی کے حوالے سے بڑی پیش رفت ہوچکی تھی، سفارتی تعلقات سفیروں کی اپنے اپنے فرائض سنبھالنے سے معمول پر آچکے تھے۔
یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے میں وہ کونسی سازشی قوتیں اور غیر ریاستی عناصر ہیں جو تعلقات کو مستقبل طور پر خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ چار روز قبل نگراں وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ابھی ایران سے جو بھی بات ہوگی اس میں اس پر ہر حال میں بات کی جائے گی کہ بی ایل اے یا بی ایل ایف کے جو بھی دہشت گرد ایران میں موجود ہیں۔
ان کو وہاں کے معاشرے سے کوئی مدد مل رہی ہے یا ریاستی سطح پر ان سے کوئی ہمدردی کی جا رہی ہے تو یقیناً یہ حکومت پاکستان کے لیے نا قابل قبول ہوگی۔ بلاشبہ پاکستان تو ایران کو برادر اسلامی ملک سمجھتے ہوئے ہمیشہ اس کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی پر گامزن رہا ہے بلکہ عالمی برادری کے ساتھ اس کے معاملات میں اس کی معاونت اور اس کے موقف کی ہر ممکن تائید اور حمایت کرتا چلا آ رہا ہے، اس کے باوجود سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آخر تعلقات خرابی کی اس نہج پر کیوں پہنچے کہ دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات منقطع ہونے کی نوبت آ گئی تھی۔
اس کے لیے ہمیں پاک ایران باہمی تعلقات، سوچ اور اندازِ فکر و عمل کا اجمالی سا جائزہ لینا ہوگا۔ پاکستان اور ایران کے سرحدی علاقوں میں ایسے غیر ریاستی عناصر موجود ہیں، جو دونوں ممالک کے لیے یقیناً مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔
طویل عرصے سے دونوں ممالک کے سرحدی علاقے سیکیورٹی فورسز اور علیحدگی پسند عسکریت پسندوں اور اسمگلروں کے درمیان جھڑپوں کا منظر نامہ پیش کرتے رہے ہیں، پاکستان اور ایران کی حکومتیں ان عناصرکی مکمل طور پر سرکوبی نہیں کرسکی ہیں جس کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔
پاکستانی اور ایرانی سیکیورٹی فورسز کی صلاحیت کے پیش نظر ایسا نہیں لگتا کہ دونوں ملکوں کے لیے اپنے سرحدی علاقوں میں شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کرنا زیادہ سخت اور پیچیدہ کام ہوگا، لیکن دونوں ممالک کے سرحدی، سیکیورٹی اور پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کی ملاقاتوں کے نتیجے میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ مہم اور سرحدوں پر سیکیورٹی بڑھانے کے لیے مشترکہ کوششوں کے کئی معاہدوں کے باوجود فریقین کو مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔
پاکستان اور ایران کے مابین پاکستانی صوبہ بلوچستان اور ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان کے ساتھ 909 کلومیٹر پر محیط ایک لمبی سرحد ہے، اس سرحد پر ماضی میں مختلف واقعات سامنے آئے ہیں۔ اسی سرحد پر ایرانی طرف بلوچ سنی اقلیت آباد ہے۔
ماضی میں تعلقات اس وقت زیادہ تناؤ کا شکار ہوئے تھے جب انڈیا کا جاسوس کلبھوشن یادو ایران سے اسی سرحد کے ذریعے پاکستان کے صوبہ بلوچستان داخل ہوا اور یہاں اسے گرفتار کر لیا گیا۔ ماضی میں پاکستان نے انسداد دہشت گردی کے معاملات میں ایران کی مدد بھی کی ہے۔
جرنل آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز کے مطابق پاکستان نے 2007 میں بلوچستان کے ایک پہاڑی علاقے میں جندل اللہ نامی تنظیم کی جانب سے 21 ٹرک ڈرائیوروں کو بازیاب کروایا تھا۔ جند اللہ کے مرکزی رہنما عبدالمالک ریگی کو 2010 میں طیارے میں دبئی سے کرغستان جاتے ہوئے گرفتارکیا گیا، جس کے حوالے سے ایران میں اس وقت کے پاکستانی سفیر نے بتایا تھا کہ پاکستان کی مدد کے بغیر یہ گرفتاری ممکن نہیں تھی۔
دوسری جانب پاکستان میں بی ایل اے کے دونوں دھڑے لاپتہ افراد کے معاملے کو بھرتی کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بی ایل اے ایسے خاندانوں کو پیسوں کی تنگی کے حوالے سے مدد، طاقت اور ریاست کے خلاف محاذ آرائی کے لیے استعمال کرتی ہے۔
بی ایل اے کے دونوں دھڑے بلوچستان کے اندر فعال طور پر بھرتی کر رہے ہیں اور بعض صورتوں میں خلیج اور یورپ میں بھی بلوچ تارکین وطن تک پہنچ جاتے ہیں۔ دونوں دھڑوں کی بھرتی کی حکمت عملی کم و بیش ایک جیسی ہے۔ بی ایل اے کے حمایتی تارکین وطن اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کر کے بلوچستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں، سیاسی، سماجی اور اقتصادی محرومیوں کے ساتھ ساتھ علیحدگی کو ہوا دیتے ہیں۔
جیش العدل پاکستان اور ایران کی سرحدوں پر سرگرم ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی اور حال دونوں میں پاکستان نے ایران کے ساتھ تعاون بھی کیا ہے۔
جنداللہ کے سربراہ عبدالمالک رِیگی کو پکڑنے میں پاکستان نے ایران کی مدد کی تھی، اب ایران سے بھی امید ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستان سے ہر ممکن تعاون کرے۔
ایران میں سرگرم گروہوں کے بڑھتے حملوں اور دہشت گردوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی گرفتاریوں کا سلسلہ پریشان کن ہے اور فرقہ ورانہ ملیشیا کو کم لاگت پاور پروجیکشن ٹول کے طور پر استعمال کرنے کی مجموعی حکمت عملی پورے خطے کے لیے خطرناک ہے، لیکن یہاں دہشت گردوں کی مدد کرنے والے عناصر آگ سے کھیل رہے ہیں۔
یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے بہت زیادہ اقدامات کر رہی ہیں، خطے کے لیے بہتر ہوگا کہ ایران اور پاکستان مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں اور مل کر دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کریں۔
ہماری ایران کے ساتھ 900 کلومیٹر طویل سرحد ہے، ہمیں تجارت، سرمایہ کاری،آئی ٹی، زراعت اور دیگر معاشی میدانوں میں آگے بڑھنا چاہیے۔
پاکستان کم و بیش تین دہائیوں سے توانائی کے جس بحران کا شکار ہے اور آج نوبت شعبہ بجلی کے انتہائی سطح کے گردشی قرضوں اور پھر سے بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ اور تیل وگیس کی کمیابی تک جا پہنچی ہے جب کہ موجودہ حالات میں معیشت سمندر پار سے یہ ضروریات انتہائی مہنگے داموں پوری کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی، ایران نے ایک بار پھر ان کی فراہمی اور اس کے بدلے میں پاکستان کی زرعی و صنعتی پیداوار کی درآمد بڑھانے میں دلچسپی ظاہرکی ہے۔
جہاں سستی بجلی کا حصول اہم ترین قدم ہے وہیں کراسنگ پوائنٹس پر مشترکہ مارکیٹوں کا قیام اربوں روپے کی اسمگلنگ کی روک تھام میں مدد دے گا۔
ایران، پاکستان کے لیے سستے تیل وگیس اور بجلی کی فراہمی میں انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے اور پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت نے وہاں سے گیس پائپ لائن لانے کا معاہدہ بھی کیا تھا، اسی طرح وہ پاکستان سے باسمتی چاول، آم اور کینو کا ایک بڑا خریدار ہے جب کہ دیگر برآمدات میں کپڑا اور سیمنٹ قابل ذکر ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی وفود کا بلا تعطل تبادلہ ہوتا آیا ہے اور حکومتی قیادتیں بارہا ایک دوسرے سے ملاقات اور معاہدے کرتی آئی ہیں، تاہم خطے کی صورتحال کے تناظر میں بعض سیاسی مصلحتیں آڑے آئیں جس کا اثر باہمی تجارت پر پڑا، یہی وجہ ہے کہ آج تجارتی حجم اپنی استعداد سے بہت کم ہے۔ 2016 میں طے پانے والے معاہدے کے تحت اسے 2021 تک 30 کروڑ ڈالر سے بڑھاکر پانچ ارب ڈالر تک لے جانے پر اتفاق ہوا تھا یہ پروگرام آج بھی تشنہ تکمیل ہے۔
دیرینہ دوست اور تجارتی پارٹنر عوامی جمہوریہ چین سمیت دیگر پڑوسی ممالک باہمی تجارت کے تحت ایک دوسرے کی ضروریات زندگی پوری کرنے کی مکمل استعداد رکھتے ہیں جس کی رو سے نہ صرف بارٹر سسٹم کو فروغ مل سکتا ہے بلکہ اس سے ڈالرکی قدر میں کمی کا رجحان فروغ پائے گا۔
خطے میں پاک ایران تعلقات بہت اہمیت رکھتے ہیں، اس بات کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان اور ایران کے مابین غلط فہمی اور سفارتی تعطل کو دنیا بھرکے میڈیا نے نمایاں اہمیت دی۔ روس، چین، افغانستان، سعودی عرب اور ترکی کی سفارتی کوششیںجاری رہیں۔
یہ ان پس پردہ تعمیری سرگرمیوں کا نتیجہ ہے کہ تعلقات کی فوری بحالی ممکن ہوئی، وگرنہ ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ دشمن پاک ایران تناؤ سے فائدہ نہ اٹھا لے۔ پڑوسی دشمن ملک میں تو خوشی کے شادیانے بجنے کی بازگشت بھی سنی گئی۔
بھارت اسرائیل اور ان کے حواری خوش تھے کہ مسلمان ممالک کی توجہ فلسطین سے ہٹ گئی۔ دشمنوں کا یہ خواب شاید کبھی پورا نہ ہو، پاکستان اور ایران نے ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا اس کے اثرات یقیناً دونوں ممالک کے عوام پر پڑیں گے۔