امریکی قانون سازوں نے صد جو بائیڈن اور وزیرخارجہ انٹونی بلنکن پر زور یا ہے کہ وہ پاکستان کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی مکمل تحقیقات ہونے تک نئی حکومت کو تسلیم کرنے سے گریز کریں۔
تمام ڈیموکریٹس قانون سازوں نے اپنے مشترکہ خط میں پاکستان کے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں انتخابات سے قبل اور بعد میں دھاندلی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے انتخابات کے دن خلاف ورزیوں اور رکاوٹوں کے شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے سے پہلے ایک شفاف اور قابل اعتماد تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
تمام 33 دستخط کنندگان صدر بائیڈن کی دوسری مدت کے حصول کے لیے اہم ترقی پسند ڈیموکریٹس ہیں۔ مشی گن کے حالیہ پرائمری انتخابات میں امریکی صدر کو غزہ جنگ کے حوالے سے اپنے موقف سے غیر مطمئن کارکنوں کی قیادت میں ایک زبردست ’غیر وابستہ‘ مہم کا سامنا کرنا پڑا، یہ پیش رفت بائیڈن کیمپ کے لیے خاصی تشویش کا باعث بن رہی ہے، خاص طور پر اس لیے کہ مشی گن کے بااثر مسلم قانون سازوں نے بھی پاکستان تحریکِ انصاف کے حق میں لکھے گئے اس خط کی حمایت کی ہے۔
مشی گن میں اثر و رسوخ رکھنے والے مسلمان ارکان میں راشدہ طلیب، الہان عمر اور آندرے کارسن شامل ہیں۔
پروگریسو کاکس کی چیئرپرسن اور اکثر کشمیر کاز کی وکالت کرنے والی پرمیلا جے پال نے اس خط کی تائید کی ہے۔ اس کے علاوہ چیئر ایمریٹس باربرا لی اور وہپ گریگ کاسر نے بھی اپنے دستخط شامل کیے ہیں۔ کاکس کے نائب صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے الہان عمر بھی دستخط کنندگان میں شامل ہیں۔
امریکی قانون سازوں نے وزارت خارجہ کے حکام پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں زیر حراست سیاسی کارکنوں اور میڈیا اہلکاروں کے بارے میں معلومات اکٹھی کریں اور ان کی رہائی کی وکالت کریں۔
انہوں نے پاکستانی حکام کو یہ بتانے کی اہمیت پر زور دیا کہ امریکی قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزی، جمہوریت کو کمزور کرنے یا بدعنوانی کو فروغ دینے والے اقدامات کے لئے احتساب کا حکم دیتا ہے۔
قانون سازوں نے انتخابات کے بعد دھاندلی کے بارے میں خدشات کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی اور نتائج کی رپورٹنگ میں تاخیر، بدسلوکی کے ویڈیو ثبوت اور ووٹوں کی مجموعی تعداد میں تضادات کا حوالہ دیا۔ انہوں نے غیر جانبدار مبصرین کی رپورٹس کا بھی حوالہ دیاجس میں پاکستان کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے سے پہلے شفاف اور قابل اعتماد آڈٹ کے عمل کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی۔
قانون سازوں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کا تحفظ اور اس بات کو یقینی بنانا کہ انتخابات کے نتائج حقیقی معنوں میں اشرافیہ اور فوج کے بجائے عوام کے مفادات کی عکاسی کرتے ہیں، امریکی مفادات سے مطابقت رکھتا ہے۔