تازہ تر ین

کلبھوشن یادیو کے بعد مودی سرکار کو ایک اور جھٹکا

نئی دہلی (آن لائن) بھارتی سپریم کورٹ نے پاک بھارت سندھ طاس معاہدے کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دینے بارے دائر درخواست مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ درخواست گزار کیسے کہہ سکتے ہیں کہ نصف صدی بعد یہ معاہدہ غیر آئینی ہے ۔ عدالت اس معاہدے پرکوئی حکم نہیں دے سکتی ۔ پیر کے روز بھارتی سپریم کورٹ میں دہلی کے وکیل ایم ایل شرما کی جانب سے دائر آئینی درخواست پر بحث کی گئی جس میں شرما کا موقف تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان یہ معاہدہ 19 ستمبر 1960 میں اس وقت کے پہلے بھارتی وزیر اعظم جوہر لا ل نہرو اور صدر پاکستان ایوب خان کے درمیان طے پایا تھا ۔ درخواست گزار کا موقف تھا کہ یہ معاہدہ غیر موثر ہے کیونکہ اس پر نہرو اور ایوب خان کے دستخط ہیں جبکہ بھارتی صدر کی جانب سے اس پر دستخط نہیں ہیں جس سے اس معاہدے کی آئینی حیثیت مشکوک ہے ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جے ایس کھیر پر مشتمل تین رکنی بنچ جس میں جسٹس ڈی وائے چندرا چود اور ایس کے کھول پر مشتمل بنچ نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ وہ یہ واضح کریں کہ نصف صدی بعد یہ معاہدہ کیسے غیرقانونی ہو گیا ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایم ایل شرما نے یہ درخواست ذاتیا ت کی بنیا د پر دائر کی ۔ عدالت اس پر کوئی حکم نہیں دے سکتی ۔ بنچ نے یہا واضح کیا کہ وہ اس آئینی درخواست کو مسترد کرتی ہے کیونکہ اس درخواست کی بناءپر کسی کو خرابی کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔اس دوران شرما کا کہنا تھا کہ اس آئینی درخواست کے مسترد کئے جانے سے حکومت پر کوئی پابندی یا دباﺅ نہیں بڑھے گا اگر وہ پاکستا ن کے سا تھ سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کرنا چاہتی ہے ۔ بحث کے دوران درخواست گزار کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ نہیں ہے کیونکہ اس معاہدے پر بھارتی صدر کے دستخط نہیں ہیں ۔یہ تین فریقوں پر مشتمل معاہدہ ہے جو غیر قانونی ہے اور یہ قابل عمل تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ اس پر عدالت کا کہنا تھا کہ پوری پٹیشن پر غور کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ آپ کی خواہش سے متفق نہیں ۔ واضح رہے کہ یہ معاہدہ 1960 میں بھارت پاکستان اور ورلڈ بنک کے درمیان طے پایا تھا جبکہ ایپک کورٹ نے گزشتہ سال اس طرح کی آئینی درخواست کی جلد سماعت کرنے سے انکار کر دیا تھا اور قرار دیا تھا کہ یہ آئینی درخواست شرما کی جانب سے ذاتی بنیاد پر دائر کی گئی ہے ۔ یہ اتنا اہم ایشو نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی سیاسی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے ۔ درخواست گزار شرما کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس معاہدے کے تحت 80 فیصد پانی پاکستان کو دیا جا رہا ہے جو بھارتی شہریوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے تاہم سپریم کورٹ نے درخواست گزار کو تنبہہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ غیر سیاسی معاملات کو سیاسی نہ بنائیں اس معاہدے پر فریقین کے دستخط موجود ہیں ۔ کسی خاص شخصیت کے معاہدے پر دستخط نہ ہونا معاہدے کی آئینی حیثیت کو مبہم یا غیر قانونی نہیں بنا سکتے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain