لاہور(خصوصی رپورٹ) قبرستانوں میں پیش آنے والے پر اسرار لانڈھی میں واقع شیر پاﺅ مولا مدد قبرستان کے گورکن ذاکر سے رابطہ کیا تو اس نے کئی حیرت انگیز اور عبرت نات واقعات بتائے۔ اس کا کہنا تھا کہ شراب پی کر مرنے والے ایک شخص کی میت سے درجنوں بچھو لپٹ گئے تھے۔ پیش امام کی قبر تیار کرنے میں ناویدہ قوت مدد کرتی رہی۔ جب ان کی لحد تیار ہوئی تو اس میں خوشبو پھوٹ رہی تھی۔ قرآن پڑھانے والے ایک شخص کی میت چار برد اور بھی تروتازہ نکلی۔ ایک دین دار خاتون نے اپنی قبر درست کرنے کی ہدایت دی تھی۔ جبکہ شوہر کا نافرمانی کرنے والی عورت کی میت کو قبر نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے 25 سالہ گورکن ڈاکر کا کہنا تھا کہ یہ قبرستان کے دادا مبارک علی شاہ عرف مولا مدد کے نام سے مشہور ہے۔ مبارک علی شاہ کی قبر بھی یہیں موجود ہے۔ دادا کے بعد ہو اب والد جاوید کے ساتھ اس قبرستان میں گورکن کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ ذاکر نے بتایا کہ لانڈھی نمبر 3 کے رہائشی قاری بلال کو، جو لونڈھی 89 کے علاقے میں واقع مسجد کے پیش امام تھے، چند برس قبل نامعلوم دہشت گردوں نے شہید کر دیا تھا۔ ورثا کی ہدایت پر اس نے ان کیلئے قبر کھودنا شروع کی۔ اس دوران ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی غیر مرئی قوت اس کام میں مدد دے رہی ہے۔ آس پاس آہٹیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔حیرت انگیز طور پر صرف 20 منٹ میں قبر تیار ہو گئی اور اسے تھکاوٹ کا احساس بھی نہیں ہوا۔ جب لحد مکمل ہو گئی تو اس میں سے خوشبو بھی پھولنے لگی۔ ذاکر نے بتایا کہ قاری بلال کے جنازے کے ساتھ اس قدر لوگ آئے تھے کہ قبروں کو بے حرمتی سے بچانے کیلئے سینکڑوں افراد کو قبرستال سے باہر روک لیا گیا تھا۔ ان کی قبر پر اب بھی فاتحہ خوانی کرنے والوں کا رش رہتا ہے۔ جبکہ اکثر رات کو ان کی قبر سے روشنی پھوٹتی ہے۔ ذاکر نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل چار سال پرانی ایک قبر حادثاتی طور پر گر گئی تھی۔ اس نے ساتھیوں کی مدد میت کو باہر نکالا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ بالکل تروتازہ تھی اور گٹن بھی میلا نہیں ہوا تھا۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہ میت خوشنود احمد عطاری نامی ایک شخص کی ہے، جو مقامی مدد سے میں بچوں کو قرآن پاک پڑھاتے تھے۔ علاقہ مکینوں اور ورثا کی موجودگی میں میت کو دوبارہ دفن کیا گیا ۔ ذاکر کے بقول اکثر واقعات اس قبر سے درود و اسلام کی آوازیں آتی ہیں اور لوگ بڑی تعداد میں یہاں فاتحہ خوانی کیلئے آتے ہیں۔گورکن ذاکر کا مزید کہنا تھا کہ اس کے دادا مبارک علی شاہ نے بتایا تھا کہ اس قبرستان میں ایک پا کباز خاتون کی قبر بھی ہے۔ 2007ء میں تیز بارشوں کے دوران قبرستان میں پانی بھر نے سے کچھ کچی قبریں بیٹھ گئی تھیں۔ ان خاتون کی قبر کے سرہانے بھی شگاف پڑ گیا تھا۔ جب اس (گورکن) کے دادا وہاں پہنچے تو آواز آئی کہ ”میری قبر درست کرو، بے پردگی ہو رہی ہے۔ ”اس پر خاتون کے ورثا کو اطلاع دی گئی اور ان کی موجودگی میں قبر کی مرمت کر دی گئی۔ ذاکر کا کہنا تھا کہ اس کے دادا ایک بار مذکورہ قبر کے قریب سے گزرے تو اندر سے تلاوت قرآن پاک کی آواز آ رہی تھی۔ ان خاتون کے حوالے سے پتا چلا تھا کہ وہ انتہائی دین دار تھیں اور انہوں نے گھر میں مدرسہ کھولا ہوا تھا۔ انہوں نے علاقے کی کئی بچیوں کو قرآن پاک کی تعلیم دی۔ گورکن ذاکر کا کہنا تھا کہ بعض واقعات ایسے ہیں کہ دل دہل جاتا ہے۔ 2014ءمیں لانڈھی 89 میں زہریلی شراب پینے سے 3 افراد مر گئے تھے۔ ان میں سے ایک کے ورثا نے قبر تیار کرنے کی ہدایت کی۔ اس صبح دس بجے قبر کھودنا شروع کی گئی لیکن کئی گھنٹے تک مکمل نہیں کی جا سکی۔ ذاکر کے بقول محض ایک فٹ کھدائی کے بعد ہی قبر سے سانپ کے نے کی آواز نے اسے ڈرا دیاتھا۔ بڑی مشکل سے اس نے جیسے تیسے قبر کھودی اور جنازے کا انتظار کرنے لگا۔ جب مرنے والے کو قبر میں اتار رہے تھے تو اچانک بھرے اور کالے رنگ کے درجنوں بچھو قبر سے نکل آتے اور میت سے لپٹ گئے۔ موقع پر موجود افراد ڈر کر پیچھے ہٹ گئے اور ہدایت دی کہ جلدی سے قبر کو ڈھانپ دو۔ ذاکر نے ایک عبرت ناک واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ ایک مرتبہ ایک عورت کی قبر تیار کرنے کو کہا گیا۔ اس وقت اس کے دادا بھی زندہ تھے۔ وہ ان کے ساتھ صبح سے قبر کی تیاری میں لگ گیا، کیونکہ ظہر کے بعد میت قبرستان آنا تھی۔ لیکن حیرت انگیز طور پر قبر تیار ہو کر ہی نہیں دے رہی تھی۔ ذاکر کے بقول جیسے ہی کام ختم ہونے لگتا، زمین سکڑ جاتی۔ قبر کو کوئی بارچوڑا کیا گیا، لیکن بار بار زمین تنگ ہو جاتی تھی۔ اس اثنا میں جنازہ بھی آگیا۔ جب ان لوگوں کو صورت حال بتائی تو پتا چلا کہ مرنے والی عورت شوہر کی نافرمان اور اس سے سخت بدکلامی بھی کرتی تھی۔ اس کو شوہر بہت دین دار اور والدہ کا فرماں بردار تھا، اور یہ بات بیوی کو سخت ناگوار گزرتی تھی۔ خاوند ان کے بزرگ اس کو سمجھاتے تو وہ ان سے بھی جھگرڑا کرتی تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ قریبی اعزا نے جب میت کا آخری دیدار کیا تو اس مرنے والی عورت کے چہرے پر اذیت کے تاثرات تھے۔ ذاکر نے بتایا کہ شام تک اس کیلئے قبر کھودی جاتی رہی لیکن ہر بار زمین تنگ پڑ جاتی۔ یہ دیکھ کر جنازے میں شامل لوگ استغفار پڑھتے رہے۔ پھر ایک روحانی عامل کو بلایا گیا تو انہوں نے کہا کہ شوہر میت کے سرہانے کھڑے ہو کر اسے صدق دل سے معاف کرے ۔ شوہر نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد قبر با آسانی تیار ہو گئی۔ ذاکر کا کہنا تھا کہ ورثا اس واقعے سے اس قدر شرمندہ تھے کہ انہوں نے قبر پر نام کا کتبہ کبھی نہیں لگوایا۔ اب کبھی کھبار اس کا شوہر آکر قبر پر فاتحہ خوانی کر جاتا ہے۔ قبرستان میں فاتحہ خوانی کیلئے آئے ہوئے ایک شخص عمر بلند خان کا کہنا تھا کہ وہ زیادہ تر یہاں فجر کی نماز پڑھ کر آتا ہے۔ اس وقت بعض قبروں سے تلاوت قرآن پاک کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔