راولپنڈی (آن لائن‘ مانیٹرنگ ڈیسک) آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت کور کمانڈرز اجلاس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ فوج پانامہ لیکس کیس کی تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں اپنے ادارے کے ذریعے شفاف اور قانونی طریقے سے کردار ادا کرے گی۔ سپریم کورٹ کے اعتماد پر پورا اتریں گے، ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے نمائندے ایمانداری سے تحقیقات کرینگے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری پیغام کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) راولپنڈی میں 202ویں کور کمانڈر کانفرنس ہوئی۔ترجمان آئی ایس پی آر کے مطابق کانفرنس کے دوران ملک بھر میں جاری آپریشن ردالفساد کا جائزہ لیا گیا۔ ترجمان کے مطابق شرکاء نے پانامہ لیکس کیس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بنائی جانے والی جے آئی ٹی کے معاملے پر بھی بات چیت کی۔ جس میں ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ ترجمان کے مطابق کور کمانڈرز کانفرنس کے شرکاءنے اس عزم کا اظہار کیا کہ ادارہ اپنے نمائندوں کے ذریعے جے آئی ٹی کے سلسلے میں شفاف اور قانونی کردار ادا کرے گا اور سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی ذمہ داری پر ایمانداری سے پورا اتریں گے اور اس پر من وعن عملدرآمد کیا جائے گا۔ اجلاس میں پہلے آپریشن ردالفساد کے تحت ملک بھر میں ہونیوالی کارروائیوں کے حوالے سے بریف کیا گیا۔ خیال رہے کہ 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف اور انکے خاندان کے دیگر افراد کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا۔ فیصلے کے مطابق فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں 7 دن کے اندر جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، قومی احتساب بیورو (نیب)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کا نمائندہ شامل کیا جائے۔