حکومت کے خاتمے کے بعد حسینہ واجد بھارت فرار ہوگئی تھیں اور ملکی امور نئی عبوری حکومت چلا رہی ہے جس نے پالیسیوں میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں۔
بنگلا دیش کی اس نئی خارجہ پالیسی میں حالیہ تبدیلیاں بھارت کے لیے تشویش ناک ثابت ہورہی ہیں۔
جس کے بعد سے بھارت بنگلا دیش کی خودمختاری کو نقصان پہنچانے کے لیے متعدد خفیہ حربے استعمال کررہا ہے۔
بھارت میں بنگلا دیشی قونصلیٹ پر حملے کے باعث دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات پہلے ہی کشیدگی کا شکار ہیں۔
مودی سرکار گودی میڈیا گمراہ کن معلومات کو استعمال کر کے بنگلا دیش کو غیر مستحکم کرنے کی سازش میں مصروف ہے۔
دوسری جانب چٹاگانگ میں پاکستانی کارگو جہاز کی آمد اور پاکستانی درآمدات کے لیے کسٹم کے معائنے میں نرمی ڈھاکا اور اسلام آباد کے درمیان گہرے تعلقات کا اشارہ ہے۔
بنگلا دیش اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات بھی بھارت کے لیے گہرے خدشات کا باعث بن رہے ہیں۔
پاکستان کی نفرت میں اور مودی کے سائے تلے شیخ حسینہ نے اپنی ہی عوام پر ظلم کا بازار گرم رکھا۔
بنگلا دیش کی عبوری حکومت نے بھارت سے ٹیلی کام کا وسیع البنیاد معاہدہ منسوخ کرنے کا بھی حکم دے دیا۔
بھارت اور بنگلا دیش کے درمیان غیر قانونی امیگریشن، مذہبی اقلیتوں کے حقوق اور پانی کی تقسیم کے معاہدوں جیسے مسائل پر بھی کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
بنگلا دیش میں بڑھتے ہوئے بھارت مخالف جذبات کی وجہ سے صورتحال اب مزید خراب ہو چکی ہے۔
بھارت، بنگلا دیش پر دوبارہ اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے مظاہروں اور میڈیا کا سہارا لے رہا ہے۔
بنگلا دیش کے عوام نے اپنی آزادی کا گلا گھونٹنے والی شیخ حسینہ کو ملک سے نکال کر بھارت کو منہ توڑ جواب دے دیا ہے۔