اسلام آباد (رپورٹنگ ٹیم) اپوزیشن جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ نے مشترکہ اجلاس میں صدر ممنون حسین کے خطاب کے موقع پر سپیکر ڈائس کے سامنے آکر گو نواز گو کے نعرے لگا دیئے‘ حکومت کے خلاف پلے کارڈز لہرا دیئے گئے‘ صدر کے سامنے ”جھوٹا صدر“ کا نعرہ بھی لگ گیا‘ بعض ارکان نے صدارتی خطاب کی کاپیاں پھاڑ کر ایوان میں پھینک دیں۔ وزیراعظم کے خلاف شدید نعرہ بازی کرتے ہوئے متحدہ اپوزیشن نے صدارتی خطاب کا بائیکاٹ کر دیا اپوزیشن لیڈرز کو ایوان میں بولنے کی اجازت نہیں دی گئی‘ گورنرز‘ وزراءاعلیٰ اور اعلیٰ عسکری قیادت بھی موجود تھی۔ جمعرات کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس سپیکر سردار ایاز صادق اور چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی کی مشترکہ صدارت میں ہوا۔ پونے بارہ وزیراعظم نواز شریف ایوان میں آئے تو حکومتی اراکین نے ڈیسک بجا کر روایتی انداز میں ان کا استقبال کیا جبکہ اپوزیشن اراکین نے گو نواز گو ‘ مک گیا تیرا شو نواز گو ن واز گو اور دیگر نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ اس دوران اجلاس شروع کرنے کے لئے قومی ترانہ بجایا گیا جس پر تمام اراکین احتراماً اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے۔ تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول کے بعد سپیکر سردار ایاز صادق نے صدر ممنون حسین کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کی دعوت دی۔ اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے اراکین نے نکتہ اعتراضات پر بات کرنے کی کوشش کی۔ تاہم سپیکر نے انہیں نظر انداز کر دیا جس پر دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کے اراکین ہاتھوں میں حکومت مخالف نعروں پر مبنی پلے کارڈز اٹھائے۔ سپیکر ڈائس کے سامنے جمع ہو گئے۔ جمشید دستی سیٹیاں بھی بجاتے رہے صدر کے خلاف بھی نعرے لگائے۔ صدر کے خطاب میں رکاوٹ پیدا کرنے کے لئے اپوزیشن اراکین نے انتہائی بلند آواز میں گو نواز گو‘ چاروں صوبوں کی آواز گو نواز گو‘ گلی گلی میں شور ہے چور چور‘ مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘ جندال کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘ جھوٹا صدر کے نعرے لگائے۔ جمشید دستی نے دہی بھلوں کا بھی نعرہ لگایا جبکہ صدر ممنون حسین نے اطمینان سے اپنا خطاب جاری رکھا وزیراعظم نواز شریف پرسکون انداز میں ہیڈ فون لگا کر صدارتی خطاب سنتے رہے سپیکر ڈائس کے سامنے شدید احتجاج کے بعد نعرے لگاتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ مشترکہ اجلاس میں صدارتی خطاب سننے کے لئے گورنرز ملک رفیق رجوانہ‘ محمد زبیر‘ انجینئر ظفر اقبال جھگڑا‘ محمد خان اچکزئی‘ وزیراعلیٰ بلوچستان سردار ثناءاﷲ زہری‘ صدر آزاد کشمیر‘ وزیر اعظم آزاد کشمیر‘ گلگت، بلتستان کے گورنر و وزیراعلیٰ‘ چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل زبیر‘ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ‘ فضائیہ ‘ بحریہ کے سربراہان‘ غیر ملکی سفارتکار اور دیگر شخصیات وزیٹر گیلریوں میں موجود تھیں۔ صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نے کئی نشیب و فراز دیکھے۔ سیاسی عمل کو افراتفری اور گروہی مفاد سے آزاد ہونا چاہیے، پارلیمنٹ نے مشکل حالات میں قومی اتحاد کا ثبوت دیا تاریخ اس پارلیمنٹ کا کردار ہمیشہ یاد رکھے گی، پاکستان جنوبی ایشیا کی اہم معیشتوں میں شامل ہو چکا ، مہنگائی کم شرح نمو 10 سال کی بلند ترین سطح پر ہے،آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ترقیاتی اخراجات میں 3 گنا اضافہ کر دیا۔ بھارت لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی اختلاف مسئلہ کشمیر ہے جو برصغیر کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے۔ بھارت خطے میں سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ بھارت کے رویے کی وجہ سے سارک کانفرنس منعقد نہ ہو سکی۔ جمعرات کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ سیاسی عمل کو افراتفری اور گروہی مفاد سے آزاد ہونا چاہیے، اختلاف رائے غیر فطری نہیں لیکن یہ خیر کا باعث ہونا چاہیے، اختلاف رائے سے ترقی کا عمل رکنا نہیں چاہیے، پاکستان میں جمہوریت نے کئی نشیب و فراز دیکھے، جمہوریت نے قوم کی ترقی کی کئی منازل طے کی ہیں۔ پارلیمنٹ کا مقاصد کے حصول کے لیے سفر جاری ہے، پارلیمنٹ نے مشکل حالات میں قومی اتحاد کا ثبوت دیا جس کی وجہ سے تاریخ اس پارلیمنٹ کا کردار ہمیشہ یاد رکھے گی۔ صدر مملکت نے کہا کہ ترقی کے دھارے میں سب کو شامل کیا جانا ضروری ہے، پیچھے رہ جانے والوں کو قومی دھارے میں لانے کا احساس قوی ہو رہا ہے، بلوچستان کا احساس محرومی ختم کرنے کے اقدامات جاری ہیں۔ معاشرے کا ہر طبقہ قومی تعمیر نو میں حصہ ڈالے۔ ملک کی معاشی صورت حال پر صدر نے کہا کہ پاکستان جنوبی ایشیا کی اہم معیشتوں میں شامل ہو چکا ہے، مہنگائی کم جب کہ شرح نمو 10 سال کی بلند ترین سطح پر ہے،عالمی بینک نے بھی پاکستان کو بہترین کارکردگی والی معیشتوں میں سے ایک قرار دیا ہے، آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ترقیاتی اخراجات میں 3 گنا اضافہ کر دیا گیا ہے اور ہمیں ان معاملات پر مزید نظر رکھنی ہوگی۔ ویژن 2025 ملک کے لیے اہم اقدام ہے،حکومت اور سیاسی جماعتیں اسے متفقہ طور پر قومی منصوبہ قرار دے۔ ہمیں صحت اور تعلیم کے شعبوں میں مزید توجہ کی ضرورت ہے، برآمدات میں اضافے کے لیے مسئلے کا حل نکالا جائے۔ زراعت معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن زراعت کے شعبے کو سب سے بڑا چیلنج موسمیاتی تبدیلی ہے۔ میں توقع کرتا ہوں کہ معاشرے کا ہر طبقہ اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر کام جاری رکھے گا۔ انہوں نے کہا قوم کے مختلف طبقات کے درمیان اختلاف رائے کا پیدا ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن اسے انتشار میں بدلنے کا راستہ پوری حکمت عملی کے ساتھ بند کردیا جائے۔ تاکہ ملکی ترقی کو روکنے کا عمل ناکام بنایا جا سکے۔ انہوں نے پاک، بھارت کشیدگی کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ بھارت لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی اختلاف مسئلہ کشمیر ہے جو برصغیر کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے۔ انہوں نے بھارت کے جارحانہ طرزعمل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اپنے طرز عمل کی وجہ سے بھارت اس خطے میں سب سے برا خطرہ بن چکا ہے جبکہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینا ہے۔ انہوں نے بھارت کی عدم شرکت کی بنا پر گذشتہ برس نومبر میں اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس کی منسوخی کے حوالے سے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ بھارت کے رویے کی وجہ سے سارک کانفرنس منعقد نہ ہوسکی۔ صدر مملکت نے کہا کہ ہم تمام مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں لیکن بھارت نے پاکستان کی پرخلوص پیشکش کا کبھی مثبت جواب نہیں دیا۔ صدر مملکت نے گذشتہ روز افغان دارالحکومت میں ہونے والے خودکش حملے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن کے بغیر خطے میں استحکام نہیں آسکتا۔ مشترکہ اجلاس کے میں وزیراعظم نواز شریف، مسلح افواج کے سربراہان، وزرا اعلی، گورنرز، وفاقی وزرا اور سفارت کار بھی موجود تھے۔