پاکستان میں صحتِ عامہ کی سنگین ہنگامی صورتحال، لاکھوں افراد متاثر
پاکستان آج ایک ایسی صحت عامہ کی ہنگامی حالت کا سامنا کر رہا ہے جو ملک بھر میں لاکھوں افراد کی زندگیوں کو متاثر کر رہی ہے۔ عالمی ذیابیطس دن کے موقع پر جاری ہونے والے تازہ اعداد و شمار انتہائی پریشان کن ہیں پاکستان میں ہر چار میں سے ایک بالغ فرد ذیابیطس کا شکار ہے یا اس کے ابتدائی مراحل میں ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور انٹرنیشنل ڈائبیٹیز فیڈریشن کی حالیہ رپورٹس کے مطابق، پاکستان میں تقریباً 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد ذیابطیس کے مریض ہیں، جو کہ ملک کی بالغ آبادی کا تقریباً 26 فیصد بنتے ہیں۔ یہ شرح دنیا میں دوسرے یا تیسرے نمبر پر شمار ہوتی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں مریض ہونے کے باوجود آدھے سے زیادہ افراد کو اپنی بیماری کا علم ہی نہیں ہوتا۔ذیابیطس کو “خاموش قاتل” اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ مرض برسوں تک بغیر کسی واضح علامت کے انسانی جسم کو اندر ہی اندر تباہ کرتا رہتا ہے۔ذیابیطس کے باعث ہر سال ہزاروں افراد دل کے دورے، فالج، گردوں کی ناکامی، بینائی کے ضیاع اور پیروں کے اعضا کٹنے جیسی مہلک پیچیدگیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ لاہور کے ڈائبیٹک انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد مسعود کے مطابق: “پاکستان میں گردے فیل ہونے کی سب سے بڑی وجہ ذیابیطس ہے، جبکہ نابینا پن کی بھی یہ ایک اہم وجہ بن چکی ہے۔”پاکستان میں روایتی متوازن غذا جو دالوں، سبزیوں اور سادہ کھانوں پر مشتمل تھی، اس کی جگہ اب فاسٹ فوڈ، میٹھے مشروبات اور پروسیسڈ غذاؤں نے لے لی ہے۔شہری علاقوں میں تو ہر گلی میں کوئی نہ کوئی فاسٹ فوڈ کی دکان کھل گئی ہے۔ لوگ اب گھر کے کھانے کی بجائے باہر کے کھانے ترجیح دیتے ہیں جو چکنائی اور شکر سے بھرپور ہوتے ہیں۔”شہروں میں گاڑیوں کے بڑھتے استعمال، دفتروں میں بیٹھے رہنے والی نوکریوں اور جسمانی مشقت میں عمومی کمی نے بھی اس مرض کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستانی شہریوں کی روزانہ کی اوسط چہل قدمی 15 سال قبل کے مقابلے میں 60 فیصد کم ہو چکی ہے۔ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ذیابیطس کے مریض جو باقاعدہ ورزش اور صحت مند خوراک اپناتے ہیں ان میں پیچیدگیوں کا خطرہ 50 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔
ماہر امراض شوگر، معدہ و جگر ڈاکٹر سید جعفر حسین کے مطابق ذیابیطس کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ مریض کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ بیمار ہے۔ جب تک علامات ظاہر ہوتی ہیں تب تک جسم کے اہم اعضاء کو نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے۔جنوبی ایشیائی لوگوں میں ذیابیطس کا خطرہ قدرے زیادہ ہوتا ہے۔ کسی بھی بیماری کا علاج تب تک ممکن نہیں ہے جب تک تمام سٹیک ہولڈرز اپنے اپنے حصے کا کردار ادا نہیں کریں گے۔ جب ایک فرد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ آنکھوں، نیورو سرجری، ناک، کان، گلے کے انفیکشن، دل کے مسائل، ہڈیوں و جوڑوں کے مسائل اور خاص طور پر ذہنی عوامل سے بھی دوچار ہوتا ہے لہٰذا اِس مرض کے عوامل کو پہچانیں اور خود کو جتنا بچا سکتے ہیں بچائیں۔ اس کے علاوہ ہمیشہ کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ پیدل چلیں، کھانے میں احتیاط کریں اور ادویات کے استعمال کے ساتھ ساتھ طرزِ زندگی کو بھی تبدیل کریں۔
دیہی علاقوں میں تو اکثر لوگوں کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ ذیابیطس کے مریض ہیں۔ شہروں میں بھی باقاعدہ چیک اپ کا رجحان بہت کم ہے۔ ملک بھر میں ذیابیطس کے علاج کی سہولیات کا جال بھی ناکافی ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ذیابیطس نہ صرف انفرادی سطح پر تباہی پھیلا رہی ہے بلکہ قومی معیشت پر بھی اس کا بھاری بوجھ پڑ رہا ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس کے باعث سالانہ 2 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوتا ہے جس میں علاج پر اخراجات اور کام کے دن ضائع ہونے کی لاگت شامل ہے۔اس بحران سے نمٹنے کے لیے ہمیں مختلف سطحوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ذیابیطس کے خلاف جنگ کو قومی ترجیح بنائے۔ذیابیطس کی ادویہ اور علاج کو ہر شہری کی پہنچ میں لانا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ عوامی مقامات پر پارکس اور واک وے بنائے جائیں تاکہ لوگوں کو ورزش کی سہولت میسر آ سکے۔ میٹھے مشروبات اور غیر صحت مند غذاؤں پر خصوصی ٹیکس عائد کیا جائے ۔سکولوں اور کالجوں میں صحت مند غذاؤں کو فروغ دیا جائے۔ پرائمری ہیلتھ کیئر سینٹرز کو ذیابیطس کی سکریننگ کی سہولیات سے لیس کیا جائے۔ ڈاکٹروں اور نرسوں کو ذیابیطس کے جدید علاج کی تربیت دی جائے۔ سرکاری ہسپتالوں میں مفت یا سستی سکریننگ کی سہولیات مہیا کی جائے ۔حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ ہر فرد کی اپنی صحت کے حوالے سے ذمہ داری بنتی ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ وہ متوازن خوراک اپنائیں: تازہ پھلوں، سبزیوں، سارے اناج اور lean proteins کو اپنی خوراک کا حصہ بنائیں۔روزانہ کم از کم 30 منٹ کی جسمانی ورزش کو معمول بنائیں۔اپنے وزن کنٹرول میں رکھنے کے ساتھ ساتھ تمباکو نوشی اور شراب نوشی سے پرہیز کریں۔ سال میں ایک بار باقاعدہ طبی چیک اپ ضرور کروائیں۔ذہنی دباؤ کو کم کرنے کے لیے یوگا، مراقبہ یا دیگر طریقے اپنائیں۔صحت ہزار نعمت ہے، اور اس کا خیال رکھنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ذیابیطس کوئی ایسا مرض نہیں جسے روکا نہ جا سکے۔ صحت مند طرز زندگی اپنا کر ہم نہ صرف اس مرض سے بچ سکتے ہیں بلکہ اسے قابو میں بھی رکھ سکتے ہیں۔عالمی ذیابیطس دن کے موقع پر ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ نہ صرف اپنی بلکہ اپنے خاندان، دوستوں اور معاشرے کی صحت کے حوالے سے بھی ذمہ دار بنیں گے۔





































