کراچی (خصوصی رپورٹ) لیاری گینگ وار اور کالعدم پیپلزامن کمیٹی کے سربراہ عزیر جان بلوچ کے حوالے سے جوائنٹ انٹیروگیشن رپورٹ میں جو انکشاف شامل کیے گئے ہیں ان کے مطابق عزیر بلوچ کے ذاتی احکامات پر 2010ءمیں اس کے چودہ گینگ وار کمانڈروں نے 158 افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا، اپنے طور پر یا مخالفین پر جھڑپوں میں ہونے والی ہلاکتیں ان کے علاوہ ہیں۔ اس ضمن میں جو معلومات جے آئی ٹی کا حصہ بنائی گئی ہیں ان کے مطابق 2010ءمیں عزیر بلوچ نے اپنے کمانڈروں کو مخالفین کے خلاف کارروائیاں بڑھانے اور ان کے منتخب افراد کو نشانہ بنانے کا ہدف دیا جس کے بعد اس کے کمانڈروں نے لیاری میں ٹارگٹ کلنگ کا بازار گرم کیا، اس دوران استاد تاجو نے اپنے بیس رکنی گروپ کے ساتھ 15 سے زائد افراد کو قتل کیا، احمد علی مگسی نے بھی بیس رکنی گروپ کے ہمراہ اتنے ہی افراد کو نشانہ بنایا جبکہ وصی اللہ لاکھو نے 25 رکنی گروپ کی مدد سے پندرہ سے زائد افراد کو قتل کیا، امین بلیدی نے 25 رکنی گروپ کے ساتھ مل کر پندرہ سے زائد افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں حصہ لیا جبکہ شیراز کامریڈ جو کہ عزیر کا سب سے چہیتا اور سب سے بڑا گینگ وار گروپ چلانے والے کمانڈر رہا اس نے شکیل بادشاہ اور چالیس رکنی فائٹرز کے دستے کی مدد سے بیس افراد کو نشانہ بنایا جبکہ لنگڑے اور کیپن نثاری گروپ نے اٹھارہ رکنی گینگ وار گروپ کے ساتھ بارہ افراد کو قتل کیا، سہیل ڈاڈا ملیر والا نے تیس رکنی گینگ وار جتھے کی مدد سے ملیر کے علاقوں میں دس سے زائد افراد کی ٹارگٹ کلنگ کی اور جبار جھینگو نے اپنے پچیس رکنی گینگ وار گروپ کے ساتھ بھی دس سے زائد افراد کو قتل کیا، اسی طرح سے ریحان نے اپنے ماتحت موجود بارہ رکنی گروپ کے ساتھ چار افراد کو قتل کیا، سلیم چاکلیٹی جو کہ بلوچ پاڑہ لیاقت آباد میں سرگرم تھا اس نے بیس سے زائد ساتھیوں کی مدد سے آٹھ مخالفین کو قتل کیا، خاموش کالونی لیاقت آباد میں شاہد بکک نے اثرورسوخ قائم کرنے کیلئے اپنے علاقے اور اطراف میں بیس رنی گروپ کے ساتھ مل کر دس سے زائد افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جمیل چھانگا جو کہ گارڈن اور تھارولین کے علاقوں میں سرگرم رہا اس نے بھی پچیس رکنی گینگ کے ساتھ مل کر اٹھارہ سے زائد افراد کو موت کی ابدی نیند سلایا جبکہ ملانثار نے اپنے پندرہ رکنی جتھے کے ساتھ مل کر آٹھ سے زائد افراد کو قتل کیا اور سردار آصف حب چوکی والے نے پندرہ رکنی فائٹرز گروپ کی مدد سے چھ مخالفین کو ٹھکانے لگایا، جے آئی ٹی میں عزیر بلوچ سے تعلق رکھنے والے سولہ دیگر افراد کی معلومات بھی شامل کی گئی ہیں جنہیں عزیر بلوچ ذاتی ملازمین کی حیثیت سے استعمال کرتا رہا ہے ان میں خالق بلوچ مالی ، سکندر عرف سکوگن مین (واضح رہے کہ سکندر عرف سکو بطور گینگ وار کمانڈر بھی کام کرتا رہا ہے) اکبر بلوچ ڈرائیور، پنجابی جوگی گن مین، جوگی کا بھائی گن مین فہیم جوشا گن مین، کامی پنجابی گن مین، کاشف گن مین، گوادری گن مین، الطاف باورچی، سرور بلوچ ذاتی سیکرٹری ، وسیم اور اسماعیل چھوٹو صفائی والے، اللہ بخش اور محبوب لوچ خانسامہ، وسیم عرف ڈاڈا ویٹر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی جے آئی ٹی میں عزیر بلوچ کے ان چودہ کمانڈروں کے کوائف بھی شامل کیے گئے ہیں۔ جو کہ کراچی آپریشن شروع ہونے کے بعد بیرون ملک فرار ہوگئے تھے سب سے زیادہ 9 گینگسٹرز ایران میں روپوش ہوئے جبکہ چار مسقط صرف ایک ساتھ افریقہ فرار ہوا، ان میں فیصل پٹھان، ایران ، وصی اللہ لاکھو ایران، سلیم چاکلیٹی ایران، سکوایران، بابربرگر ایران، شاہد ایم سی بی ایران، ایاز زہری ایران، ملا نثار ایران، آصف سردار ایران، شیراز کامریڈ مسقط، سنی مسقط، شکیل بادشاہ مسقط، اسماعیل افشانی مسقط، استاد تاجو ساﺅتھ افریقہ اور دبئی شامل ہیں۔ جے آئی ٹی میں عزیر بلوچ کے 45 دوستوں کی فہرست بھی شامل کی گئی ہے، تاہم اس فہرست میں زیادہ تر وہی نام ہیں جو کہ بطور اس کے کمانڈروں اور ساتھیوں کی حیثیت سے منظر عامپر آ چکے ہیں، تاہم کچھ ایسے نام بھی ہیں جو کہ اس کے ذاتی دوست تھے اور ان کا گینگ وار کی سرگرمیوں سے کوئی واسطہ نہیں تھا، زیادہ تر لوگوں کا یہی خیال ہے کہ عزیر بلوچ بھتہ نہ دینے پر اپنے والد کے ارشد پپو کے ہاتھوں قتل ہونے کے بعدانتقامی طور پر لیاری گینگ وار سے منسلک ہوا تھا۔ جبکہ بعد میں سامنے آنے والے حقائق بھی اس خیال کو تقویت فراہم کرتے ہیں کیونکہ جے آئی ٹی کے مطابق عزیر بلوچ 2003ءمیں اپنے والد کے قتل سے قبل صرف اورصرف ایک صاف ستھرا سیاسی کیریئر اپنانے کا خواہشمند تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے 2001ءمیں لیاری سے کونسلر منتخب ہونے کے لیے الیکشن میں بھی حصہ لیا، تاہم اس وقت اسے حبیب جان بلوچ کے مقابلے میں شکست ہوئی تھی جبکہ 2013ءمیں ارشدپپو کے اغوا اور قتل کے بعد اس نے گینگ وار سرگرمیوں کو بہت حد تک کم کرکے مفاہمت کی کوششیں کی اور ناکامی پر کراچی سے فرار ہونے میں عافیت محسوس کی تھی۔