تازہ تر ین

مشال خان قتل کیس بارے سب سے اہم انکشاف ،مقتول سے کس کو خطرہ تھا ،دیکھئے خبر

مردان (بیورو رپورٹ) عبدالولی خان یونی ورسٹی میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے مشال خان کے قتل کی تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق مشال خان کا قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا، مخصوص سیاسی گروہ کو مشال کی سرگرمیوں سے خطرہ تھا، مشال یونیورسٹی میں بے ضابطگیوں کیخلاف کھل کر بولتا تھا۔تفصیلات کے مطابق مشال قتل کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے 8 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ مکمل کر لی ہے جس میں پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھائے گئے ہیں۔جے آئی ٹی میں پولیس اورمختلف ایجنسیوں کے 13 ارکان شامل تھے ۔ رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق مشال خان کے خلاف منصوبہ بندی کرکے غلط توہین رسالت کا پروپیگنڈا کیا گیا۔اس کے خلاف توہین رسالت یا مذہب کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔جے آئی ٹی کے مطابق مخصوص گروپ نے توہین رسالت کے نام پر لوگوں کو اکسایا، تشدد کے بعد مشال سے آخری بار ہاسٹل وارڈن کی بات ہوئی، مشال نے کہا کہ میں مسلمان ہوں، پھر کلمہ پڑھا اور اسپتال پہنچانے کی التجا کرتا رہا۔جے آئی ٹی کی تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ رجسٹرار سے لے کر سیکورٹی افسر تک یونی ورسٹی میں نااہل سفارشی لوگ تعینات ہیں، سیاسی اور نااہل افراد کی بھرتی سے یونیورسٹی کا نظام درہم برہم ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی میں منشیات اور اسلحہ کا استعمال اور طالبات کا استحصال عام ہے، یونی ورسٹی کے بیشتر ملازمین مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں۔رپورٹ میں پولیس کی کارکردگی سے متعلق انکشاف کیا گیا ہے کہ واقعہ کے دوران پولیس کردار پر بھی سوالات موجود ہیں، پولیس کی جانب سے بروقت کارروائی نہیں کی گئی۔جے آئی ٹی کی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ غفلت کے مرتکب افسران اور اہلکاروں کی نشاندہی کر کے کارروائی کی جائے، جب کہ اب تک کیس میں ملوث57 ملزموں میں54 گرفتار کیے گئے ہیں، جس میں 12 ملازمین شامل ہیں۔جے آئی ٹی کی پوری تفتیش میں مقتول مشال، اس کے دوست عبداللہ اورزبیرکے خلاف کوئی بھی بلواسطہ یا بلاواسطہ گستاخانہ شہادت نہیں ملی، تفتیش میں پولیس کی کارکردگی پر بھی کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں جب کہ مشال کی فیس بک آئی ڈی کی رپورٹ تاحال موصول نہیں ہوئی۔رپورٹ میں جے آئی ٹی نے سفارش کی ہے کہ پولیس کے کردارکو جانچنے کے لیے اعلی سطحی انکوائری کرائی جائے جب کہ مقدمے میں گرفتارتمام یونیورسٹی ملازمین اورملوث طلبا کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات دوبارہ رونما نہ ہو سکیں۔دوسری جانب رپورٹ میں تمام یونیورسٹی ملازمین کے کرداراورتعلیمی قابلیت کی تصدیق کرانے کا حکم دیا گیا ہے، جے آئی ٹی نے یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن کے 7 افسروں کے خلاف محکمانہ انکوائری کی سفارش بھی کی ہے جب کہ مرکزی ملزم اورپی ٹی آئی کے کونسلرعارف سمیت تین ملزمان کو اشہتاری قرار دے دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ 13 اپریل کوعبدالولی خان یونیورسٹی مردان کیمپس میں طالب علموں کے مشتعل ہجوم نے مبینہ طورپر توہین رسالت کا الزام لگا کر مشال خان کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا تھا۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain