اسلام آباد (ویب ڈیسک)امتحانات میں اچھے نمبر لیکر پاس ہونا ہر طالب علم کی خواہش ہوتی ہے اور اگر اچھے نمبر نہ بھی آئیں تو کم سے کم 33فیصد نمبر حاصل کر کے پاس ہونے کیلئے تو سبھی تگ و دو کرتے ہیں مگر کبھی کسی نے سوچا کہ یہ شرح 33فیصد تک ہی کیوں محدود ہے ؟
امتحانات میں 33فیصد نمبروں کا آغاز کافی پرانا ہے جس کا آغاز 1857ءکی جنگ آزادی کے بعد سے ہوا۔ انگریزسرکار نے برطانوی حکومت کو خط لکھا جس کے جواب میں کہا گیا کہ برصغیر کے باشندے آدھی عقل کے مالک ہوتے ہیں اس لیے اس کے طالب علموں کو پاس ہونے کیلئے ساڑھے 32فیصد نمبر کی شرح مقرر کی جائے۔
1857ءکی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان میں1858 ءمیں پہلا میٹرک کے امتحان ہوا تو انگریزوں کو اس چیز کی ضرورت محسوس ہوئی کہ طالب علموں کو کتنے نمبر لینے پاس کیا جائے۔۔ اس مقصد کے لیے انگریز سرکار نے باقاعدہ طور پربرطانوی حکومت کو خط لکھا۔خط کے جواب میں کہا گیا کہ چونکہ برطانیہ میں تو پاسنگ مارکس 65فیصد ہیں مگربرصغیر اس کی برابری نہیں کر سکتااور آدھی عقل کے مالک ہوتے ہیں اس لئے اس کے طالب علموں کو پاس ہونے کے لیے ساڑھے بتیس نمبر دیئے جائیں۔1858? ءسے لیکر 1861ءتک ساڑھے 32 فیصد اس کے بعداعداوشمار کو آسان بنانے کے لیے 33فیصد کر دی گئی جو آج تک چل رہی ہے۔