لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ٹیم پاکستان کی جیت پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ایک عرصہ سے یہ نظریہ بن گیا تھا کہ ہم جب بھی انڈیا کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ تو بری طرح سے ہارتے ہیں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ قوم کا سر فخر سے بلند ہوا ہے۔ بھارت سے بہت شاندار طریقے سے جیتے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ٹیم کے ساتھ ساتھ پوری قوم ، ٹیم اورانتظامیہ مبارکباد کی مستحق ہے۔ اللہ پاک نے بھارت کے خلاف ہمیںیہ کامیابی دلائی میچ ابھی آدھا ہوا تھا تو لگتا تھا کہ ہم تگڑے طریقے سے جیتیں گے ہارنے کے بعد بھارت کا ردعمل قدرتی تھا۔ کھلاڑیوں کے گھروں پر بلوے سے بچنے کیلئے فوج بھیجنی پڑی۔ بہرحال کھیل تو کھیل ہے، اس میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ ایک ہندو ڈپلومیٹ کے منہ سے میں نے انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل میں سنا کہ میچ میں ہار جائیں کوئی بات نہیں ہمیں بارڈر پر نہیں ہارنا چاہئے۔ اصل کامیابی یہ ہے کہ ہماری حکومت اور قوم بھارت سے ہر میدان میں بالادستی حاصل کر کے انڈیا کو نیچا دکھانے میں کامیاب ہو جائیں۔سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ سپریم کورٹ ہماری سب سے بڑی عدالت ہے۔ ہم ان کے ججز کا انتہائی دل کی گہرائیوں سے احترام کرتے ہیں لیکن آج کا بیان کچھ سمجھ نہیں آیا۔ ان کے الفاظ بہت خوفزدہ ہیںجو انہوں نے چیئرمین ایس ای سی پی کے متعلق کہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ چیئرمین ایس ای سی پی کے خلاف سنگین الزامات ہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ انصاف ہونا نہیں چاہئے بلکہ ”ہوتا ہوا نظر آنا چاہئے“ اس سے انصاف ہوتا ہوا نظر تو نہیں آتا۔ ایک طرف سپریم کورٹ کا موقف ہے کہ سنگین الزام ہیں۔ اس کا مداوا اس نے یہ ڈھونڈا ہے کہ ایف آئی اے اس کی انکوائری کرے۔ ایف آئی اے خود حکومت کے ماتحت ادارہ ہے۔ اس کے خلاف بھی اتنی ہی شکایات ہیں جتنی ایس ایس سی پی کے خلاف آئی ہیں آئی بی کے بارے میں اعتراضات موجود ہیں۔ ایک طرف سپریم کورٹ مانتا ہے کہ حراساں کرنے کا الزام درست ہے۔ پھر انہی کو کہنا کہ آپ اس کو دیکھ لو۔ میں آئی بی کے سربراہان کا بھی بہت احترام کرتا ہوں۔ ملک کی سب سے بڑی حساس ایجنسی کیا سپریم کورٹ کے ایک موقف سے اٹھ کھڑی ہو گی اور اپنے طرز عمل بدل لے گی۔ ساری شکایات دور کر دیں گے؟ معذرت کے ساتھ سپریم کورٹ یا تو خود نہ کہے کہ ان اداروں کے بارے شکایات ہیں یا پھر ان اداروں کو نہ کہیں کہ ان کی تفتیش کریں۔ جن سے شکایات ہے ان ہی کے پیٹی بھائیوں کو کہا جا رہا ہے کہ ان کا خیال رکھنا۔ نوازشریف، شہباز شریف، کیپٹن صفدر سب جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو چکے اب خبر یہ ہے کہ شاید مریم نواز کو بھی بلا لیا جائے۔سینئر صحافی نے کہا کہ ”شام“ تو ایک فٹ بال بن گیا ہے۔ اسے ہر کوئی کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ روس ہو یا امریکہ ہو یا دوسرے مسلم ممالک کسی کو بھی شام کے مظلوم عوام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ شام کے عوام اس وقت بدحال ہیں۔ دنیا میں موجود ہیومن رائٹس کو چاہئے کہ آگے بڑھیں اور شامی عوام کے لئے کچھ کریں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جے آئی ٹی کے معاملے میں ایک نیا کردار انعام الرحمان سحری سامنے آ گیا ہے۔ کچھ میڈیا چینلز نے بہت تیزی سے اسے ہوا دینی شروع کر دی ہے۔ پہلے یہ دیکھ لینا چاہئے کہ چور اور ڈاکو کی گواہی قابل قبول ہے بھی یا نہیں؟ اس شخص نے دعویٰ کیا ہے کہ میں رحمن ملک دور میں ڈپٹی ڈائریکٹر تھا اور حدیبیہ پیپر ملز کی میں نے خود تحقیقات کی تھیں۔ میرے پاس ساری معلومات ہیں۔ میں نے 200 صفحوں کی رپورٹ تیار کی تھی۔ یہ فائل شہباز شریف نے گم کروا دی۔ الزام لگانا تو بہت آسان ہے۔ اس نے کہا ہے کہ مجھے سکیورٹی دی جائے تو میں اس فائل کی نقل جے آئی ٹی کے سامنے پیش کر سکتا ہوں۔ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔وہ سچا ہے یا جھوٹا اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا۔ یہ آدمی پاکستان میں ریلوے پولیس میں ایس پی تھا۔ یہ پولیس سے ہی جاتا ہے۔کچھ دیر شاید یہ ایف آئی اے کا ڈپٹی بھی رہا۔ وہ یہ کہتا ہے کہ موٹر وے کے پی سی ون میں ساڑھے آٹھ ارب روپے اس کی لاگت رکھی گئی تھی جسے بعد میں بڑھا کر 14 ارب پھر اسے 16 ارب کر دیا گیا۔ الزام یہ لگایا ہے کہ نوازشریف دور میں موٹر وے پر بڑے پیمانے پر کرپشن کی گئی جبکہ انہوں نے شریف فیملی کی بیرون ملک تیسری آف شور کمپنی کا بھی انکشاف کیا ہے جس کا نام ”کیوڈران“ بتاتا ہے۔ دو تین چینلز نے فوراً اس کو اٹھا دیا اور عمران خان نے بھی ڈیمانڈ ٹھوک دی کہ اس بندے کو لایا جائے اور اس سے بھی ثبوت لئے جائیں۔ انعام الرحمان سحری جب ایس پی تھے۔ اس وقت ان کے خلاف بہت سے الزامات تھے اور یہ فرار ہو کر پاکستان سے باہر چلے گئے اس پر حکومت پاکستان نے انٹر پول سے رابطہ کیا۔ یہ ان پانچ افراد میں سے ایک ہیں جنہیں انٹرپول نے وعدہ کیا کہ انہیں پاکستان کے حوالے کیا جائے گا لیکن یہ غائب ہو گیا، اس شخص کے خلاف پولیس اور ریلوے میں وسیع پیمانے پر خوردبرد کے الزامات لگائے گئے تھے اس کے علاوہ اس کی پراپرٹی پاکستان اور بیرون ملک جتنی تھی وہ اس کی تنخواہ اور مراعات سے سینکڑوں گنا زیادہ تھی۔ اس کے بعد این آر او کے وقت آصف زرداری، بینظیر بھٹو کے ساتھ ساتھ جو لوگ رہا ہوئے مشرف نے اس آدمی کو بھی رہا کردیا حالانکہ مشرف کا قول ہے کہ این آر او اس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ چنانچہ رہا ہونے کے بعد اس کے خلاف کارروائی ختم کر دی گئی۔ اب اس شخص نے نعرہ مستانہ لگایا ہے کہ میرے پاس شریف فیملی کے خلاف بہت کچھ ہے جبکہ اپنے بارے میں وہ سب کچھ بھول گئے ہیں۔انعام الرحمان سحری نے کہا ہے کہ اب میرا ضمیر جاگ گیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ملک کی کچھ خدمت کروں۔ اس کا قول ہے کہ جس طرح این آر او کے تحت 350 افراد کے ضمیر دھل گئے ہیں میرے بھی جرائم اسی طرح دھل چکے ہیں۔ اب جے آئی ٹی اسے گواہ کے طور پر لیتی ہے یا نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی قانون اور ہمارے ملک کے آئین میں بھی گواہ کا کردار سب سے پہلے دیکھا جاتا ہے۔ جے آئی ٹی والے بھی بہت سیانے لوگ ہیں، وہ اس سے گواہی لینے سے پہلے اس شخص کا کردار ضرور دیکھیں گے۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ججز کو اس طرح کے ریمارکس نہیں دینے چاہئے۔ ہمارے ملک میں چلنے والی بلیم گیم کا انجام اچھا نظر نہیں آتا۔ سپریم کورٹ کبھی اداروں کو، کبھی اٹارنی جنرل کو بلیم کرتے ہیں۔ کبھی ادارے ان کو یا جے آئی ٹی کو بلیم کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے تحفظات پر اٹارنی جنرل نے بھی کوئی ریمارکس نہیں دیئے کہ جج صاحب ”کوڈ آف کنڈکٹ“ سے باہر نکل کر ایسے ریمارکس کس طرح دے سکتے ہیں۔ معاملات اسی طرح چلتے رہے تو اصل معاملات چھپ جائیں گے اور سائیڈ ایشوز پر ہی 60 دن گزر جائیں گے اس کے بعد رپورٹ آ بھی جاتی ہے تو اس پر ٹرائل ہونا باقی ہے۔ یہ ایک سے زیادہ فورمز پر ہوں گے اس کے چلتے چلتے الیکشن آ جائیں گے اور یہ پراسیس لمبے سے لمبا ہوتا جائے گا۔ بیورو چیف امریکہ محسن ظہیر نے کہا ہے کہ امریکہ میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے عوام کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اس کو پینٹا گون اور دیگر بڑے اداروں میں بیٹھے لوگ ہی کنٹرول کرتے ہیں پھر جس طرح میڈیا اس کو ہائی لائٹ کرتا ہے امریکی عوام اسی طرح اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ شام کا طیارہ گرانے کے حوالے سے یہاں پر پروپیگنڈا پھیلایا گیا ہے کہ انتقامی اقدامات کے تحت اس طیارے کو مار گرایا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ داعش کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اس طیارے کو مار گرایا گیا ہے جبکہ روس اور شام نے یکسر اس بیان کی تردید کر دی گئی ہے۔ اب تک ان کی آدھی سے زیادہ عوام دربدر ہو چکی ہے۔ بیشتر دوسرے ممالک میں پناہ گزین بن چکے ہیں جبکہ اب تو امریکہ میں بھی شام کے لوگوں کو پناہ دینے سے گریز کیا جا رہا ہے۔