لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سیاستدان و قانون دان دو حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے بیان دیا ہے کہ جے آئی ٹی کا بننا ہی غلط ہے، آئین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ نون لیگ اور اس کی اتحادی جماعتیں وزیراعظم کی حمایت میں جبکہ عمران خان، شیخ رشید اور سراج الحق کھل کر مخالفت کر رہے ہیں۔ اعجاز الحق نے اپنے والد کا نام زندہ کرنے کے لئے ایک پارٹی بنا رکھی ہے جبکہ بحران میں انہوں نے ہمیشہ نوازشریف کا ساتھ دیا۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ایسے معاملات سپریم کورٹ نہیں آتے، نوازشریف کا موقف درست ہے تو اس پر میں نے ان کو تجویز کیا کہ آپ خود درخواست دے کر ایک پارٹی بن جائیں۔ انہوں نے کہا کہ عرفان قادر کی قانون پر اجارہ داری نہیں، اعتزاز احسن، فواد چودھری، نعیم بخاری سمیت مختلف بار ایسوسی ایشنز بھی جے آئی ٹی پر تنقیدی بیانات کے خلاف ہیں۔ عرفان قادر کو اپنے بیان کے بعد اب چاہئے کہ نوازشریف کی وکلاءٹیم کی قیادت کرتے ہوئے اپنے دلائل عدالت میں پیش کریں یا پھر خود پارٹی بن جائیں۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف کے موقف کے خلاف یا حق میں نہیں ہوں لیکن ایک طرف وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ احتساب کے لئے خود کو پیش کرتا ہوں جبکہ دوسری جانب عدلیہ و جے آئی ٹی پر اعتراض کرتے ہیں اگر اتنے اعتراضات ہیں تو اس کو ماننے سے انکار کر دیں۔ پانامہ کیس کا فیصلہ کسی اور نے نہیں صرف عدالت نے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مریم نواز کے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے متعلق متضاد اطلاعات ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ مسلم لیگ ن نے طے کیا ہے کہ اگر فیصلہ ان کے خلاف آ گیا تو وہ کسی اور کو وزیراعظم بنا کر سینٹ انتخابات کا انتظار کریں گے جبکہ ایسی اطلاع بھی ہے کہ فیصلہ خلاف آنے کے باوجود نوازشریف وزات عظمیٰ نہیں چھوڑیں گے۔ مسلم لیگ ن دو مراحلپر مقابلہ کرے گی، اس نے آخری وقت تک جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر فیصلہ ان کے خلاف آتا ہے تو بھی وزیراعظم اپنی سیٹ نہیں چھوڑیں گے اور فیصلے کو چیلنج کریں گے، پھر عوامی سطح پر سیاسی مہم چلائیں گے۔ نوازشریف نے خود لندن ایئرپورٹ پر میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ”قوم ایک طرف جبکہ جے آئی ٹی دوسری طرف جا رہی ہے۔“ زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ مزید ہے، جے آئی ٹی نے اب آخری رپورٹ پیش کرنی ہے۔ مستقبل میں کوئی زیادہ پرسکون حالات نظر نہیں آتے۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف و عمران خان دونوں فریقین ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں، سیاست میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش جاری ہیں۔ دونوں طرف سے انتہا پسندانہ انداز اختیار کیا جا رہا ہے۔ عمران خان کا بھی فیصلے سے پہلے فیصلہ دینا درست نہیں۔ سانحہ احمد پور شرقیہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس قسم کا یہ کوئی پہلاحادثہ نہیں ہے اس سے پہلے اس قسم کا حادثہ بھکر میں بھی پیش آیا تھا جب لوگ پٹرول کی بالٹیاں بھر بھر کر لوٹ مار کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف حادثے کے بعد لندن میں اپنی ساری مصروفیات ترک کر کے فوری وطن واپس پہنچے۔ شہباز شریف نے بھی وزیراعظم کی ہدایت پر وہیں رات گزاری، وہ کسی بھی حادثے کے بعد کافی متحرک ہوتے ہیں انہیں چاہئے کہ متعلقہ محکموں کو بھی اسی طرح الرٹ کریں۔ دو، ڈھائی گھنٹے پولیس کے تاخیر سے پہنچنے کو کوئی وجہ نہیں بنتی۔ حادثہ تو نہیں روکا جا سکتا البتہ نقصانات کو کم سک کم کیا جا سکتا ہے۔ ترقی پسند معاشرے اچھے اقدامات اور اچھی مشینری کا استعمال کرتے ہوئے حادثے کے نقصانات کو کم سے کم کر سکتے ہیں۔ سانحہ احمد پور شرقیہ پر حکومت و اپوزیشن کی ایک دوسرے پر تنقید کے حوالے سے تجزیہ کار نے کہا کہ کرکٹ میچ ہو رہا ہے، ہر پارٹی سکسر لگا رہی ہے۔ سانحہ کے روز ڈاکٹر وسیم اختر نے بیان دیا کہ ”پرویز الٰہی دور میں ملتان میں 3 کروڑ روپے سے زائد مالیت سے برن سینٹر کی منظوری دے دی گئی تھی لیکن اگلی حکومت نے اسے لاہور منتقل کر دیا۔ پنجاب حکومت کو اس الزام کی تصدیق یا تردید کرنی چاہئے۔ تجزیہ کار مکرم خان نے کہا ہے کہ سانحہ احمد پور شرقیہ اپنی طرز کا پہلا حادثہ نہیں۔ نوازشریف کی گزشتہ حکومت میں بھکر میں بھی آئل ٹینکر گرنے سے اسی طرح آگ لگی تھی جس کے نتیجے میں 70 لوگ جھلس کر جاں بحق ہو گئے تھے۔ جائے حادثہ سے احمد پور شرقیہ پولیس سٹیشن 7 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لیکن پولیس نہیں آئی۔ اسسٹنٹ کمشنر عبدالرﺅف بھی وزیراعلیٰ شہبازشریف کی آمد سے پہلے سارا دن غائب رہے۔ اس علاقے کے کسی ہسپتال میں برن یونٹ موجود نہیں۔ بہاولپور سے رحیم یار خان تک نیشنل ایکسپریس ہائی وے ہے جہاں صحت سمیت کوئی بھی سہولت موجود نہیں۔ بیرون ممالک میں ہائی ویز پر ہر طرح کی سہولتیں دی جاتی ہیں جبکہ پاکستان میں بڑی بڑی سڑکوں کا صرف میک اپ کیا جاتا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ آئل ٹینکر گاڑی کو بچاتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا۔ حادثے کے بعد وہاں دیکھنے والوں میں ڈھائی سے 3 سو لوگ موجود تھے جبکہ پولیس وہاں آئی ہی نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ لاہور، پنڈی اور کھاریاں منتقل کئے جانے والے زخمی 60 فیصد سے زیادہ جھلسے ہوئے ہیں۔