ملتان(رپورٹ: مرزا ندیم) پُرتشدد مظاہرے‘ شادیوں اور تقریبات میں فائرنگ‘ گلی محلوں میں تقریبات‘ نوپارکنگ میں پارکنگ ملتان سمیت پاکستان دنیا بھر میں اپنا امیج تباہ کرچکا ہے۔پاکستان اس عادات کے حوالے سے سرفہرست آگیا ہے جس کی وجہ سے بدنامی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔بااثر لوگوں نے اپنے لئے نئے قوانین بناکر قانون کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ پُرتشدد مظاہروں میں کھربوں کی املاک تباہ ہوچکی ہیں۔سب سے خوفناک احتجاجی مظاہرے 27دسمبر 2007ءکو بینظیر بھٹو کی ہلاکت پر کئے گئے جس میں اربوں روپے کی املاک نذرآتش کردی گئیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں لوگ اپنے مطالبات کو لکھ کر قطاروں میں سڑک کنارے کھڑے ہوجاتے ہیں جہاں سے گزرنے والے لوگ انہیں دیکھ کر گزرتے ہیں اور پھر حکومتی کمیٹی مظاہرین سے مذاکرات کرکے مظاہرہ ختم کرادیتی ہے مگر ہمارے ہاں احتجاج پُرتشدد ہوجاتا ہے۔ سڑکوں اور چوک بلاک کرکے گاڑیوں کو آگ لگادی جاتی ہے۔ جب چاہیں گلی محلوں میں قناتیں لگاکر تقریبات سجائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے روڈ بلاک ہوجاتے ہیں اور لوگ اپنے ہی گھروں میں جانے کےلئے راستے تلاش کررہے ہوتے ہیں۔ اندرون شہر کے علاقے خاص طور پر ایسی تقریبات کا مرکز بنے ہوئے ہیں جہاں جہیز کا سامان دکھانے کےلئے تمام گلیوں کو بند کردیا جاتا ہے۔ ٹریفک اشاروں کی خلاف ورزی‘ دیواروں پر نعرے اور شکلیں بنانا‘ پیک تھوکنا‘ صفائی کا خیال رکھنے کے بجائے گندگی پھیلانا‘ سڑکیں توڑنا‘ نوپارکنگ میں پارکنگ کرنا ہماری عادات کا حصہ بن چکی ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستانیوں میں بری عادات 95فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔ کچھ تو لوگوں کی عادات پہلے سے ہی بگڑی ہوئی ہیں۔ رہی سہی کسر معاشرتی حالات‘ مہنگائی‘ بیروزگاری‘ گھریلو حالات اور لوڈشیڈنگ نے پوری کردی ہے۔ بجلی نہ ملنے پر لوگ واپڈا دفاتر پر حملے کردیتے ہیں۔ ملازمین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ املاک کو بھی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ پاکستان میں لوگ بری عادات کو فخر سے بتاتے ہیں۔ بااثر لوگ قانون توڑکر اپنے ”بڑے“ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں جبکہ قانون پر عملدرآمد کےلئے موجود فورس بھی ان لوگوں کے سامنے بے بس ہیں۔ ملتان میں بااثر لوگ اور چھوٹے افسران سرعام اپنی گاڑیوں پر نیلی بتی اور سبز نمبرپلیٹ کا استعمال کررہے ہیں مگر پولیس اہلکار کارروائی کے بجائے سلیوٹ مارکر گاڑی کو روانہ کردیتے ہیں۔ سکولوں اور کالجز میں شادی کی تقریبات سجانا حکومتی اور بااثر افراد نے اپنی عزت میں اضافہ سمجھ لیا ہے۔ تقریب کے اگلے روز طالب علم صفائی میں مصروف ہوتے ہیں۔ پُرتشدد مظاہروں اور بری عادات کے خاتمہ کےلئے حکمرانوں اور مقامی انتظامیہ کسی قسم کی کارروائی سے انکاری ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکمران پُرامن احتجاجی مظاہروں پر کان نہیں دھرتے جب معاملہ بگڑ جاتا ہے تو ہرطرف سے نوٹس لے لیا جاتا ہے۔