رپورٹ: امتنان شاہد
وزارت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد قرعہ شہباز شریف کے نام نکلا ہے۔ شہباز شریف مسلم لیگ (ن) کے اہم پالیسی میکرز میں شامل رہے ہیں، وہ نہ صرف پنجاب بلکہ قومی مسائل پر بھی سابق وزیر اعظم اور پارٹی لیڈر میاں نوازشریف کے ساتھ مشاورت میں شامل رہے لیکن ان کے ہوتے ہوئے بھی مسلم لیگ ن پنجاب کی وزارت اعلیٰ ان کے فرزند حمزہ شہباز شریف سنبھالتے رہے۔ حمزہ شہباز جوکہ قومی اسمبلی کے رکن ہیں وہ پنجاب میں پوری مسلم لیگ کی قیادت ارکان قومی وصوبائی کے ساتھ رابطے میں رہتے رہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی غیرموجودگی میں ان کے فرائض دیتے رہے تو اس میں کوئی شک کی بات نہیں ہو گی۔ حمزہ شہباز موجودہ حالات میں وزیراعلیٰ کے عہدے کیلئے موضوع ترین امیدوار ہو سکتے ہیں جس طرح میاں شہباز شریف کو قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا کر وزیر اعظم بنایا جا رہا ہے بالکل ایسے ہی حمزہ شہباز شریف کو صوبائی اسمبلی کا رکن بنا کر وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر سامنے لانا ایک بہترین انتخاب ہو گا۔ مشرف دور میں حمزہ شہباز نہ صرف خاندان کا کاروبار دیکھتے رہے بلکہ سیاسی طور پر بھی انہوں نے اپنی پارٹی کو فعال رکھا۔ ان مشکل حالات میں جب عمران خان، شیخ رشید، طاہرالقادری، بلاول زرداری، شہباز شریف کے وزیراعظم کے طور پر نامزدگی کے بعد دوبارہ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم لیگ ن ایک نیا چہرہ عوام میں متعارف کرائے اور جتنی جلدی یہ کام کر لیا گیا نہ صرف مسلم لیگ ن کے دو ٹرن بلکہ عوام اس بات سے مطمئن ہونگے کہ نئی قیادت ان کے سامنے آ رہی ہے۔ اگلا الیکشن 2018ءمیں ہو گا لیکن مسلم لیگ ن کو اپنی قوت اور پانامہ فیصلہ کے بعد اپنی حقیقت بتانے کیلئے اس بات کا جلد فیصلہ کرنا ہو گا کہ اس الیکشن میں الزامات کے نرغے رہتے ہوئے کس بنیاد پر جائیں گے۔ حمزہ شہباز کے بارے میں جو لوگ جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ بلاشبہ پورا صوبہ پنجاب جو مسلم لیگ ن کا قلعہ ہے اس کے تمام سیاسی اور سماجی مسائل گزشتہ 9 سال سے حمزہ شہباز بہتر انداز میں سلجھاتے آئے ہیں۔ ایچ بلاک ماڈل ٹاﺅن میں واقع ان کا دفتر مسلم لیگ ن کے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کیلئے ایک اہم مرکز رہا ہے۔ اپنے تایا اور والد کی غیرموجودگی میں پنجاب کے اراکین کیلئے وہ مرکوز ومحور رہے ہیں اور جس طریقے سے انہوں نے قومی اور خاص کر صوبائی معاملات کو چلایا صرف وہی چلا سکتے تھے چونکہ ان کے تایا اور والد دیگر قومی امور میں مصروف رہے۔