تازہ تر ین

عمران خان کو نا اہل نہیں کر سکتے کیونکہ۔۔۔!

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کو رٹ میں عمران خان نا اہلی کیس کی سماعت ،چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ عمران خان نا اہلی کیس کی سماعت کر رہا ہے ۔چیف جسٹس کے یمارکس کے مطابق قانون میںغلط سرٹیفکیٹ پر نا اہلی کی سزا کا ذکر نہیں ۔قانون میں ممنوعہ فنڈ ضبط کیے جانے کا ذکر ہے ۔وکیل انور منصور کے مطابق ایک بار ایسا فنڈ آیا تھا جو واپس کر دیا گیا ۔چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی یو ایس اے تحریک انصاف کی ایجنٹ ہے اور امریکہ میں فنڈ ریزنگ کر تی ہے ۔چیف جسٹس کی جانب سے پو چھا گیا اگر ممنوعہ فنڈ سے کوئی رقم پاکستان آئے تو کیا وصول کرنی چاہےے اس پر انور منصور نے کہا ایک دفعہ ایسی رقم آئی تھی لیکن واپس کر دی گئی تھی

اسلام آباد(صباح نیوز)عدالت عظمی میں تحریک انصاف کو ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل نے الیکشن کمیشن پر الزام لگایا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنے جواب میں براہ راست پارٹی پر حملہ کیا ہے جبکہ درخواست گزار حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے کہاہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے غلط دستاویزسپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ہیں ، جبکہ ممنوعہ فنڈنگ حاصل کرنابھی تسلیم کرلیا گیا ہے اس لئے اب مزید تحقیقات کی ضرورت نہیں ہے ، عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ الیکشن کمیشن کوکسی بھی پارٹی کے اکاﺅنٹ کی جانچ کا حق حاصل ہے، الیکشن کمیشن اکاونٹینٹ کی رپورٹس کو قبول اور مسترد بھی کر سکتاہے اور کیا اگر چند سال بعد الیکشن کمیشن کو کسی معاملہ کاپتہ چلے تو وہ اس کو نظر انداز کر دیگا۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں عمران خان نااہلی کیس کی سماعت آج منگل تک ملتوی کردی گئی ۔پیرکوسپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں سماعت کی ،سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ امید کرتا ہوں انور منصور صاحب آپ کی طبعیت اب بہتر ہوگی جس پر وکیل عمران خان نے کہا کہ دستاویزات جمع کرائی ہیں تاہم زیادہ دیر کھڑا نہیں ہو سکتا،تحریری معروضات میں سوالوں کے جواب دے چکا ہوں۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کہتے ہیں الیکشن کمیشن ممنوعہ فنڈز پر فیصلہ نہیں دے سکتا جس پر انور منصور نے کہا کہ جی بالکل، الیکشن کمیشن یہ کیس نہیں سن سکتا،پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 میں پورا قانون تبدیل کر دیا گیا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ کا کہنا ہے اکاﺅنٹ رپورٹ کے بعد الیکشن کمیشن اکانٹس نہیں دیکھ سکتا جس پر انور منصور نے کہا کہ میرا موقف ہے رپورٹ جمع کروانے کے بعد آڈٹ نہیں کرا سکتے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق ہر سیاسی جماعت فنڈنگ زرائع بتانے کی پابند ہے جس پر انور منصور نے کہا کہ میں یہ نہیں کہ رہا میں جوابدہ نہیں ہوں، عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق ہر جماعت کے چارٹرڈ اکاونٹنٹ کا جواب حتمی ہے جب کہ الیکشن کمیشن آپ کو سنے بغیر فیصلہ نہیں کرے گا۔ انور منصور نے کہا کہ صرف ایک سیاسی جماعت کو نہ چنا جائے جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ قانون کے مطابق آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ صرف مجھے سزا نہ دیں، آپ اپنے موقف سے خود کو الزام سے صاف کریں۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ میرے جواب پر اعتراض سے پہلے وکیل انورمنصور پورا پیرا پڑھیں جب کہ بدنیتی اور فراڈ پر مبنی جواب پر الیکشن کمیشن معاملہ کو دیکھ سکتا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے جنرل بات کی ہے کسی کو منسوب نہیں کیا۔ وکیل انور منصور نے کہا کہ عدالت جواب کو شروع سے پڑھے تو فراڈ کا لفظ پی ٹی آئی کے لیے استعمال کیا جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو اکاﺅنٹ کی جانچ کا حق حاصل ہے، الیکشن کمیشن اکاونٹینٹ کی رپورٹس کو قبول اور مسترد کر سکتاہے اور کیا اگر چند سال بعد الیکشن کمیشن کو پتہ چلے تو وہ اس کو نظر انداز کر دیگا، فارن فنڈنگ کی معلومات تو دوسرے ذرائع سے آئیگی۔وکیل عمران خان انور منصور نے اپنے دلائل میں کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں یہی کررہی ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگرعمران خان کا ڈکلیئریشن غلط نکلے اور ہم معاملہ الیکشن کمیشن بھیجیں تو آپ کی قیادت کا کیا موقف ہوگا، انور منصور نے کہا کہ عدالت اس معاملے پر کمیشن بنا سکتی ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک ادارے کو چھوڑ کر کمیشن کیوں بنانا چاہیے۔ انور منصور نے کہا کہ سیاسی جماعت کے نجی اکانٹس کی تشہیر نہیں کی جاسکتی جس پر جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعت کے اکاونٹس نجی کیسے ہو سکتے ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کیا قانون میں لکھا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کے اثاثے ظاہر کئے جائیں جس پر وکیل عمران خان نے کہا کہ قانون میں ایسا نہیں لکھا، جسٹس بندیال نے کہا کہ ہر سال الیکشن کمیشن ان کی شفافیت کو مد نظر رکھ کر پبلک کرتا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہر سیاسی جماعت نے اپنا حساب دینا ہے اور یہ حساب الیکشن کمیشن نے لینا ہے جس پر انور منصور نے کہا کہ حساب تو سب نے دیناہے۔جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ سے فارن فنڈنگ کا پوچھا جائے تو کیا اس کو آڈٹ کہا جائے گا جس پر انور منصور نے کہا کہ میرا کہنا ہے آڈٹ انکوائری میں نہیں کیا جاسکتا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر آڈٹ نہیں کریں گے تو آمدن اور اخراجات ہی رہ جاتا ہے جب کہ کسی دوسری سیاسی جماعت کا کیس آیا تو اس کو بھی دیکھیں گے تاہم دیکھنا ہے کہ کیا پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈز لیے ہیں اور اگر فنڈز ممنوعہ ہیں تو کارروائی کون کریگا۔حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے غلط دستاویز سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے، یہ دستاویزات انہوں نے خود تیار کیے اور اس جواب میں ایک بھی دستاویز درست نہیں، فارن فنڈنگ پر جمع کرائی گئے دستاویز کا ہر صفحہ خود تیار کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے اصل فنڈز سے کم فنڈز ظاہر کیے اور کہا گیا ہے کہ حلال کو حرام سے الگ کردیا ہے، حرام انتظامی طور پر خرچ کیا گیا اور حلال پاکستان بھیجنے کا موقف دیا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ حرام نہیں ممنوعہ کا لفظ ہے، وکیل عمران خان انور منصور نے کہا کہ ان کا کہنا تھا کہ میں امریکہ دستاویز بنانے گیا تھا جس پر اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ میں نے آپ کے بارے میں ایسا نہیں کہا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ان دستاویز کو دیکھنے میں مہینے لگ جائیں گے، اکرم شیخ نے کہا کہ جناب کی عقابی نظریں ایسی دستاویز کو ریکارڈ کا حصہ بننے کی اجازت نہیں دینگی جب کہ میرا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے خود ساختہ دستاویز ات لگائی ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا جو بھی فنڈز ہیں وہ فارا کو اس کی معلومات دیتے تھے جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ قانون کے مطابق فارا کو تمام معلومات دینا ہوتی ہیں، ہم نے ریکارڈ پرموجود ایک ایک نام کا جائزہ لیا وہ فارا ریکارڈ پر نہیں۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain