اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) مصدقہ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی تقریر میں پاکستان پر عائد کیے گئے الزامات پر وزارت خارجہ اسلام آباد میں رات گئے تک مختلف اجلاسوں میں سفارتی رابطوں اور باہمی مشاورت کا عمل جاری رہا۔ اس دوران اسلام آباد، بیجنگ اور واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے سے بھی ایک سے زیادہ مرتبہ رابطے ہوئے۔ سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر میں متوقع نکات کے خدشات کے پیش نظر حفظ ماتقدم کے طور پر دو روز قبل ہی چین روانہ ہوگئی تھیں۔ اس کے علاوہ پاکستان نے امریکا کی نئی افغان پالیسی کا مو¿ثر سفارتی ردّعمل تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق امریکا کو نئی پالیسی پر مو¿ثر سفارتی ردّعمل دینے کے لیے حکومت نے دفتر خارجہ میں اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں نئی امریکی افغان پالیسی کے جواب میں سفارتی حکمت عملی تیار کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ، ڈی جی امریکا، ڈی جی اقوام متحدہ، ڈی جی افغانستان منصور خان، ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا سمیت دیگر حکام شرکت کریں گے۔ ادھر بھارت اور افغانستان نے امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی نئی افغان حکمت عملی اور پاکستان کے حوالے سے سخت مو¿قف کا خیرمقدم کیا ہے۔ بھارت نے کہا کہ یہ وہی خدشات ہیں جن کا ہم اظہار کرچکے ہیں۔ افغانستان کی مستحکم اور مضبوط ملک بننے کے لیے مدد جاری رکھیں گے۔ افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ امریکی حکمت عملی خطے میں پُرامن مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک منفرد موقع ہے۔ دریں اثناءافغان طالبان نے امریکا کی جانب سے پیش کی جانے والی نئی افغان پالیسی پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر امریکا افغان سرزمین سے اپنے فوجیوں کا انخلا نہیں کرتا تو افغانستان کو امریکی افواج کا قبرستان بنا دیا جائے گا۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر میں کچھ بھی نیا نہیں تھا، یہ ایک مبہم تقریر تھی جس میں امریکی صدر نے مزید امریکی فوجی افغانستان میں تعینات کرنے کا اشارہ دیا۔طالبان ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ اگر امریکا نے اپنے فوجی افغانستان سے نہیں نکالے تو یہ امریکا کے لیے اکیسویں صدی کا قبرستان بن جائے گا۔ایک سینئر طالبان کمانڈر نے نامعلوم مقام سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ صرف سابق امریکی صدر جارج بش کی طرح گھمنڈی رویے کو مسلسل بڑھا رہے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا اپنے فوجیوں کو افغانستان میں ضائع کر رہا ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں اپنے ملک کی کس طرح حفاظت کرنی ہے، نئی امریکی پالیسی سے خطے میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا۔ امریکی صدر کے بیان نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ صلیبی جنگ ہے جبکہ امریکا پوری مسلم امہ کو ختم کرنا چاہتا ہے۔طالبان کمانڈر نے اپنی گفتگو کے دوران واضح کیا کہ وہ کئی نسلوں سے یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔