لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سیاست میں جب تک ضرورت رہتی ہے ”ساتھ“ چلتا رہتا ہے۔ عائشہ گلا لئی نے عمران کے بارے یہ کہا ہے کہ وہ کون ہوتے ہیں مجھے نکالنے والے؟ ایک بدکردار شخص کسی سیاسی پارٹی کا لیڈر نہیں ہو سکتا“ عمران خان اگر گلا لئی کو پیغامات بھیجتے تھے تو یقینا انہیں بھی آتے ہوں گے اس لئے تو یہ سلسلہ 4 سالوں تک چلتا رہا۔ تحریک انصاف سے علیحدگی کے ایک دن قبل وہ عمران کے جلسے میں بھی تھی اور ان سے ملنے بھی گئی تھی۔ اس لئے عمران کے بارے عائشہ کے الفاظ بہت سخت اور نامناسب ہیں۔ انہیں کچھ محتاط رہنا چاہئے۔ 15 ویں ترمیم کے تحت کسی کارکن کو پارٹی سے نکال دیا جائے تو اس کے پاس حق نہیں ہے کہ وہ یہ کہے کہ مجھے نکالنے والے کون ہوتے ہیں؟ عائشہ گلا لئی منتخب ہو کر نہیں آئی بلکہ سپیشل سیٹ پر ایم این اے ہے۔ آئین کی رو سے اگر پارٹی چیئرمین قومی اسمبلی کے سپیکر کو خط لکھ دے کہ فلاں شخص کو فارغ کر دیں تو سپیکر وہ خط الیکشن کمیشن کو بھیج دیتا ہے۔ اس طرح وہ شخص سیٹ سے فارغ ہو جاتا ہے۔ شاہد حاقان عباسی کے والد خاقان عباسی بہت اچھے اور نفیس آدمی تھے۔ امید تھی کہ وزیراعظم بننے کے بعد شاہد خاقان عباسی تگڑے ہو جائیں گے لیکن ابھی تک وہ وزیراعظم لگ ہی نہیں رہے۔ لوگ جو باتیں وزیراعظم کے منہ سے سننا چاہتے تھے وہ کل چیف آف آرمی سٹاف نے کہی ہیں۔ قوم آپ کو وزیراعظم تسلیم کرتی ہے۔ پاکستان کی قوم کو حوصلہ دلانا آپ کا فرض ہے۔ آپ کے والد تو بہت ہمت والے انسان تھے۔ اوجڑی کیمپ سانحہ کے وقت آپ کے والد حود موقعہ پر جائزہ لینے آئے تھے اور وہ وہاں حادثے کی نذر ہو گئے۔ وہ بھی ایک شہید ہیں کیونکہ سرکاری حیثیت میں وہ سانحہ کے مقام پر جائزہ کیلئے گئے تھے۔ آرمی چیف صاحب کی ہم سب تعریف کرتے ہیں۔ لیکن آپ نے یہ کس طرح کہہ دیا کہ دشمنوں کی گولیاں ختم ہو جائیں گی اور ہمارے سینے باقی رہیں گے۔ ہمارے جوانوں کے سینے اتنے فالتو نہیں ہیں۔ نہ ہی ہم اتنے کمزور ہیں۔ یہ جوان گولیاں چلانے کے اہل ہیں۔ قمر جاوید باجوہ صاحب آپ نے اسی بات کا حلف اٹھا رکھا ہے کہ آپ پاکستان کی فوج کے ہر فرد کے دلوں میں جذبہ پیدا کریں کہ ہم دشمنوں کو مار کے مریں گے۔ ہمارے جوانوں کے سینے فالتو ہیں؟ ہمارا ہر سپاہی دس دشمنوں کو مار کر شہید ہو گا۔ ہمارے وزیرخارجہ خواجہ آصف صاحب ایک منجھے ہوئے انسان ہی لیکن یہ عجب ہے کہ اپنے فیصلوں کے لئے آپ دوسروں کی جانب دیکھیں۔ آپ وزیرخارجہ ہیں آپ نے اہم فیصلے مقرر کرنے ہیں۔ آپ قومی اسمبلی اور سینٹ سے رہنمائی حاصل کریں۔ نوازشریف صاحب کا فیصلہ عدالت سے آ چکا ہے اور وہ اسے عدالت میں چیلنج بھی کر چکے ہیں۔ لیکن آپ سب کیوں ہاتھ پاﺅں چھوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں ایسا لگتا ہے کہ ن لیگ فیصلے کرنے سے ڈر رہی ہے۔ سفیروں کو بلا کر مشورہ کرنے کی کیا ضرورت تھی یہ تو عجیب بات ہے کہ دوسرے ملک کے سفیر ہمیں کیا مشورہ دیں گے۔ فوج نے 6 ستمبر پر ”نومور“ کی بات کہہ دی ہے۔ یہ بات شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف صاحب کو کہنی چاہئے تھی۔ آپ اکثریتی جماعت کے نمائندے ہیں۔ آپ اپنی ذمہ داریوں کا مظاہرہ کریں۔ ہم خواجہ آصف کے مشن کی کامیابی کیلئے دُعا گو ہیں کیونکہ وہ ہمارے ملک کے وزیرخارجہ ہیں۔ میاں نوازشریف کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ہے اس وقت تک کہ سپریم کورٹ انہیں منع نہ کر دے۔ وہ ملک کے عزت دار شہری ہیں، وہ ملک کی بڑی سیاسی پارٹی کے قائد ہیں ان کی پارٹی اس وقت اقتدار میں ہے۔ وہ جیسے چاہیں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کے حامد الحق نے کہا ہے کہ عائشہ گلا لئی خود کو ایسے پیش کر رہی ہے جیسے وہ ملالہ یوسف زئی بن گئی ہو۔ شہرت حاصل کرنے کیلئے وہ کبھی کہہ رہی ہے کہ مجھے کے پی کے میں خطرہ ہے کبھی کہہ رہی ہے کہ پشاور میں خطرہ ہے اس کے والدین اسے غلط استعمال کر رہے ہیں۔ پارٹی کے چیئرمین کا حق ہوتا ہے کہ وہ جسے چاہئے پارٹی سے نکال سکتا ہے۔ آج جو انہوں نے الفاظ استعمال کئے ہیں ہم انہیں برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ میڈیا پر خود کو معصوم ثابت کر کے لوگوں سے ہمدردی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کے پاس بلیو پاسپورٹ ہے۔ اس کے والد کے پاس بھی بلیو پاسپورٹ ہے۔ یہ خود کو مظلوم ثابت کر کے سیٹ پر بیٹھی رہنا چاہتی ہے تا کہ ایم این اے کی تمام سہولتیں مل سکیں۔ تجزیہ کار عبداللہ حمید گل نے کہا ہے کہ پاکستان کی پالیسی اس وقت نازک موڑ پر آ گئی ہے۔ اس وقت ہم ”نو امریکہ نو“ پر تو آ گئے ہیں۔ آج وہ حقائق کھل کر سامنے آ گئے ہیں جسے ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ 9/11 ایک بہانہ تھا۔ افغانستان ان کا ٹھکانا تھا اور پاکستان نشانہ تھا۔ آج یہ بات کھل کر عیاں ہو چکی ہے۔ حکومت کو اپنے موقف پر اسٹینڈ لینا ہو گا۔ یہ نہ ہو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پھر امریکہ کے مفاد میں کام شروع کر دیئے جائیں۔ ہمیں امریکہ کو اسٹریٹجک پارٹنر کے سوا اور کچھ نہیں کہنا چاہئے وہ بار بار ہمیں سمجھا چکے ہیں کہ بھارت ان کا قدرتی حلیف ہے۔ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں پاکستان پر ملبہ ڈالنے کی کوشش کی۔ یہی بات آرمی چیف نے اپنے بیانیہ میں کہا ہے آج سفیروں کی کانفرنس ختم ہو گئی ہے بہت جلد اعلامیہ بھی سامنے آ جائے گا۔ نئی پالیسی میں کشمیر کو کس حد تک رکھا جاتا ہے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات کس حد تک لے کر آنا ہیں۔ افسوس ہوا کہ امریکی سفیر ڈیوڈہیل سے دوسرے سفیروں سے الگ کیوں ٹریٹ کیا گیا اس سے وزیراعظم اور سکیورٹی کے دیگر افسران نے ملاقات کیوں کی۔ اب معاملات بدل گئے ہیں۔ اتنی قربانیوں کے بعد ہمیں پس پشت ڈالا گیا۔ پاکستان بہت طاقتور ملک ہے۔ امریکہ افغانستان میں شکست تو کھا چکا اب وہ یہاں پر ناک رگڑے گا۔ ماہرقانون دان ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ نیب ریفرنس دائر ہونے کے بعد جج نے فیصلہ کرنا ہے کہ گرفتاری عمل میں لائی جائے یا نہ لائی جائے۔ اگر نیب کورٹ انہیں گرفتار کر لے تو ان کی ضمانت ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے ہو سکتی ہے۔ یہ سابق وزیراعظم اور ان کے خاندان کا معاملہ ہے۔ پاکستان کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ نیب ان کے حق میں جائے گی۔ مقدمہ شروع ہونے کے بعد پتہ چلے گا کہ یہ کس سمت جاتا ہے۔ تاہم عدالتی کارروائی سے شریف فیملی اور مسلم لیگ (ن) کو زبردست دھچکا لگے گا۔ ایسی روایت بھی موجود ہے کہ سیاسی کارکن فوراً سمت تبدیل کر لیتے ہیں۔ اسی صورت میں مڈٹرم الیکشن ضروری ہو جائیں گے۔ لیکن اگر سینٹ کے الیکشن تک یہی سیٹ اپ رہتا ہے تو ضرورت نہیں پڑے گی علاوہ ازیں یہ مڈ ٹرم الیکشن کی طرف جا سکتے ہیں۔ یہ سوچ لینا کہ نیب کورٹ بہت جلد فیصلہ کرے گی ایسا ممکن نہیں۔ اس مقدمے میں شہادتیں ہوتی ہیں، گواہیاں ہوتی ہیں اس میں بہت وقت درکار ہے۔ بھٹو دور سے آج کے حالات بہت مختلف ہیں۔ 1965ءکے حالات بالکل مختلف تھے۔ اس وقت ہم دو ملک آپس میں لڑ بیٹھے تھے۔ علاقے میں کسی کو بھی ہمارے مفاد سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ سوائے اس کے کہ سکیورٹی کونسل چاہتی تھی کہ یہ دونوں ملک ابھی ابھی آزاد ہوئے ہیں۔ آپس میں اتنا نہ لڑیں کہ بنا بنایا کھیل خراب ہو جائے۔ آج کی صورت حال بالکل مختلف ہے۔ خواجہ آصف جو اب چین جا رہے ہیں انہیں بریفنگ دی گئی ہو گی۔ لیکن میرا مشورہ ہو گا کہ وہ چین کے اوپر ہرگز اعتراز نہ اٹھائیں کہ اس نے برکس پر دستخط کیوں کئے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ”اینٹی ٹیررزم“ میں ہم امریکہ اور چین سے بھی آگے ہیں۔ برکس کانفرنس میں چین کے دستخطوں کو وجہ شکایت نہ بنائیں۔ امریکہ کی اسٹریٹجک پالیسی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ وہ ہمیں کس طرح تنہا کرے گا۔ ہمیں اس کی کیا فکر ہے۔ پاکستان افغانستان کے مسئلہ کے حل کا حصہ ہے۔ ہمارے بغیر یہ مسئلہ حل ہی نہیں ہو سکتا۔
