تازہ تر ین

بلاول کی طرح مریم نواز کی بھی تعریف کرتا ہوں اچھی تقریر کرنے لگی ہیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ صدر، وزیراعظم، وزراءاعلیٰ اور اہم شخصیات کی جانب سے آنے والے پیغامات پی آر او بناتا ہے پھر دیگر افسران دیکھ لیتے ہیں اس کے بعد محترم سائن (دستخط) کر دیتے ہیں۔ پاکستان کے صف اول کے اخباروں کے مضامین ہر چند سال بعد دہرا دیئے جاتے ہیں۔ اہم لکھنے والے نسیم حجازی اپنے مضامین خود لکھتے تھے اور پھر اس پر دستخط کرتے تھے۔ دوسرے حمید نظامی (مرحوم) اپنے مضامین و ایڈیٹوریل خود مرتب کرتے تھے۔ آج کے ایڈیشن زیادہ تر پرانے ہوتے ہیں۔ یہی حال ہمارے علماءکرام کا ہے۔ خلفائے راشدین و دیگر مذہبی تہواروں پر ان کے نام سے چھپنے والے تمام مضامین اور ایڈیشن لکھے لکھائے ہوتے ہیں اور وہ اس سے قبل دس دس مرتبہ چھپ چکے ہوتے ہیں۔ صرف نام تبدیل کر کے دوبارہ چھاپ دیئے جاتے ہیں۔ خدارا ایڈیٹر صاحبان تو ان مضامین کو خود پڑھ لیا کریں۔آزاد کشمیر کے ایک وزیراعظم گزرے ہیں عبدالحمید خان وہ لندن گئے ہوئے تھے۔ ایک ہی وقت میں ان کا بیان لندن سے اور ریڈیو پاکستان آزاد کشمیر (تراڑ کھل) سے نشر ہوا۔ موصوف ایک ہی دن لندن میں اخبار والوں سے بات بھی کر رہے تھے اور آزاد کشمیر میں خطاب بھی کر رہے تھے ہم لوگ ایک فراڈ قسم کا کھیل کھیلتے ہیں۔ سارے ہی جھوٹ بولتے، لکھتے اور سنتے ہیں۔ قائداعظم کے فرمودات پر میں نے ایک کتاب لکھا۔ قائد کے ہر تیسرے چوتھے فرمان کو پڑھ کر میں رونے ولا ہو جاتا ہوں۔ اخبار فروش لیڈر چوہدری نذیر صاحب کو سلیوٹ کرتا ہوں۔ جنہوں نے تمام اخبارات میں ایک سیاسی امیدوار کی پمفلٹ تقسیم کئے۔ بھائی خدارا تمام امیدواروں کے پمفلٹ اسی طرح بانٹا کرو۔ ان سے پوچھو تو وہ قبول نہیں کرتے کہ ہم نے یہ پمفلٹ نہیں رکھا۔ 9/11 کے واقعہ کو رونما ہوئے عرصہ گزر گیا۔ شروع میں تو سارا ملبہ پاکستان پر ڈالا گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہاں مرنے والے لوگوں میں مسلمانوں کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ امریکہ، سپر پاور ہے ہر کسی کو کہتا ہے ”ڈومور“ 9/11 کے بعد ہزارہا مضامین لکھے جا چکے ہیں لیکن ایک بھی تحقیقاتی رپورٹ، تصدیق شدہ منظر عام پر نہیں آئی۔ برائے مہربانی بتاﺅ تو سہی اس واقعہ کے پیچھے کون تھا۔ کس کو پکڑا گیا۔ کن کن کو سزا ملی۔ ان کے سہولت کار کون تھے۔ ان کے پیچھے کون لوگ تھے۔ پہلے ہم نے بلاول کی تعریف کی آج مریم نواز کو کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اچھا بولتی ہیں۔ گھن گرج سے بولتی ہیں۔ یہ تو سچ ہے کہ ان کا موازنہ بینظیر بھٹو سے نہیں لیکن وہ ایک ابھرتی ہوئی پُرجوش سیاستدان ہیں۔ مریم بی بی حلقہ 120 کی انتخابی مہم میں تمام ہی تقاریر ایک جیسی ہوتی ہیں۔ ”مجھے کیوں نکالا؟“ ”پانامہ سے اقامہ“ ”شیر کا ساتھ دو گے ووٹ دو گے“ کے علاوہ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہوتی۔ ہمارے چینل نے تمام دن کوریج کی ہے۔ مختلف سمتوں میں ہماری تین ٹیموں نے کوریج کی اور رپورٹ مرتب کی ہے۔ اس کے مطابق تو حلقہ این اے 120 میں مریم نواز سب سے نمبر ون رہی ہے اس کا مقابلہ کسی نے نہیں کیا۔ سب ان سے پیچھے رہ گئے ہیں پسند نہ پسند اپنی جگہ لیکن سچ یہ ہے کہ انتخابی مہم کا معرکہ مریم نواز نے جیت لیا ہے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ نمبر2 یاسمین راشد، نمبر3 پی پی پی کے ممبر ہوں گے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی، جماعت الدعوة، ملی مسلم لیگ نے اتنی زبردست مہم چلائی ہے کہ سب حیران ہو گئے ہیں۔ یعقوب صاحب تو سب کو خاموشی کا درس دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اس دن جا کر ہمیں ووٹ ڈال دینا شور نہ کریں ورنہ خرید لئے جاﺅ گے یہ مذہبی جماعتیں 10 سے 15 ہزار تک ووٹ مسلم لیگ (ن) کا ضرور توڑ لیں گی۔ تحریک انصاف کے موٹے موٹے لوگ یاسمین راشد کی سپورٹ نہیں کر رہے زمینی حقائق کے حساب سے یاسمین راشد نے ڈور ٹو ڈور مہم سب سے اچھی چلائی ہے۔ جماعت اسلامی کے سیاسی یتیم کے پیچھے ایک بھی بڑا بندہ نہیں آیا۔ بلال گنج کے 75 سالہ بابے کی بات ضرور کروں گا جس نے نڈر ہو کر کہا ”کاکا پاکستان وچ ایکو الیکشن فیئر اینڈ فری ہوئے او 1970ءدے سن“ وجہ اے سی یحییٰ خان نے الیکشن سی، تے اودھی پارٹی کوئی نئیں سی۔ نہ پولیس نوں انٹرسٹ سی کہہ کینوں جتوانا اے۔ لوکی بھٹو دے نال سن تے اناں گھج وس کے ووٹ دیئے تھے۔ 1970ءتوں بعد آج تک جنہیں الیکشن ہوئے اوتھے پولیس، بدمعاش تے کن ٹوٹے ووٹ پواندے نئیں۔ یا ٹوری دواندے سَن۔ کاکا لہور وچ الیکشن اینج ای ہوندے نئیں۔ پولیس آلے کہندے نیں ایتھے رہناں اے یا نئیں۔ ٹولیاں وچ ووٹ پواندے نئیں۔“ حلقہ این اے 120 میں کلثوم نواز کو سب سے زیادہ برتری حاصل ہے وہ وزیراعظم کی بیوی ہیں۔ اس وقت بیمار ہیں۔ ہمدردی کا ووٹ بھی ہے۔ مریم نواز ان کی مہم چلا رہی ہیں۔ اگلی وزیراعظم بھی انہیں کہا جا رہا ہے۔ یہ بہت بڑے فیکٹر ہوا کرتے ہیں۔ حلقے میں دو ایم پی اے، اور تمام بلدیاتی سسٹم ان کے پاس ہے۔ آج کل وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی ان کے وزیراعظم ہیں۔ ملک میں ان کی پارٹی کی حکومت ہے۔ کوئی بھی ہارنے والوں کو ووٹ دینا پسند نہیں کرتا۔ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ پاور فل کو ووٹ دیا جائے ان سے نوکریا لینی ہیں۔ داخلے کروانے ہیں یا سڑکیں ٹھیک کروانی ہیں۔ کلثوم نواز کا پلڑا سب سے بھاری ہے۔ چیف رپورٹر خبریں طلال اشتیاق نے کہا ہے کہ حلقہ این اے 120 کے تمام علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد لوگوں کی رائے لی تھی کہ ان کے حلقے میں 30 سال میں کوئی کام نہیں ہوا۔ سڑکیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ گندا پانی پھیلا ہوا تھا۔ ملی مسلم لیگ، منظم پارٹی مہم چلا رہی ہے۔ یہ (ن) لیگ اور پی پی پی کے علاوہ تحریک انصاف کے ووٹ بھی توڑے گی۔ شہزادہ امبر سوشل میڈیا پر الیکشن مہم چلا رہے ہیں۔ کل 31 امیدوار میدان میں ہیں۔ حلقے میں سب سے زیادہ انتخابی دفاتر مسلم لیگ (ن) کے ہیں دوسرے نمبر پر تحریک انصاف کے تیسرے نمبر پر ملی مسلم لیگ کے اور چوتھے نمبر پر جماعت اسلامی کے جبکہ پی پی پی کے رکن کا کہیں بھی زور شور نظر نہیں آ رہا۔ پی پی پی کا دور دور شہرہ نہیں ہے۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain