لاہور (کرائم رپورٹر) آزادی کپ سکیورٹی تیاریاں، قذافی سٹیڈیم میں کرکٹ ٹیموں کی پریکٹس کے باعث پورا لاہور 8 گھنٹے تک جام رہا۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز احتجاج اور انتخابی مہم، صوبائی دارالحکومت پورا دن مفلوج ہو کر رہ گیا ، شہر کی تمام مین اور اہم شاہراﺅں پر ٹریفک کا شدید دباﺅ ، گاڑیوں کی لمبی لائنیں لگی رہیں ، ایمبولینسز ، فائر بریگیڈ اور پولیس سمیت دیگر ریسکیو اور امدادی ٹیموں کی گاڑیاں بھی ٹریفک جام میں پھنسی رہیں،بارہا کوششو ں کے باوجود ٹریفک پولیس ٹریفک کی روانگی کو یقینی نہ بنا سکی ، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور انتخابی جلسوں کے اختتام کے بعدسڑکوں پر خوار ہونے والے شہریوں کے رات گئے اپنی اپنی منزل مقصود پرپہنچنے کے بعد ٹریف بہاﺅ بہتر ہوا ۔ بتایا گیا ہے کہ جہاں شہر میں آزادی کپ کی تیاری کیلئے شہر کی چند ایک شاہرائیں سکیورٹی خدشات کی بناءپر عارضی طور پر بند ہیں وہیں لیڈی ہیلتھ ورکرز کی جانب سے مال روڈ بلاک کرکے احتجاج کرنے اور سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم کی وجہ سے منعقد ہونے والے جلسے ا ور جلوسوں کی وجہ سے گزشتہ روز صوبائی دارالحکومت میں ٹریفک کا نظام درہم برہم رہا اور پورے شہرمیں بد ترین ٹریفک جام رہا ۔ٹریفک کے شدید دباﺅ کی وجہ سے مسلسل کئی گھنٹوں تک بلاک رہنے والی شاہراﺅں میں مال روڈ ، جیل روڈ ، فیروز پور روڈ ، لٹن روڈ ، بہاولپور روڈ ، اپر مال ، کینال روڈ ، گلبرگ مین بلیوارڈ ، وحدت روڈ ، شاہرا قائداعظم، سرکلر روڈ ، چائنہ چوک ، شادمان چوک ، ڈیوس روڈ ، بیڈن روڈ ، ریگل چوک ، شملہ پہاڑی چوک ، ایبٹ روڈ ، بوہڑ والا چوک ، گڑھی شاہو چوک ، موج دریا روڈ اور جین مندر چوک سمیت دیگر ملحقہ علاقو ں میں اس قدر بدترین ٹریفک جام رہی کہ ٹریفک میں پھنسے شہری سڑکوں پر اپنی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بند کرکے ٹریفک بحال ہونے کا انتظار کرتے رہے ۔ اس موقع پر شہر میں پھنسی ہوتی ٹریفک کو بحال کرنے کیلئے ٹریفک پولیس کے تمام اقدامات بے سود ثابت ہوئے اور تمام تر تدبیروں کے باوجود سٹی ٹریفک پولیس ٹریفک بحال نہ کرسکی ۔ٹریفک جام میں پھنسے رہنے کی وجہ سے سکول ، کالجز اور دیگر تعلیمی اداروں میں حصول تعلیم کیلئے آنیوالے بچے بھی دوپہر کو چھٹی ہونے کے بعد شام کو اپنے گھروں کو پہنچے جس پر انکے والدین پریشنانی کے عالم میں سکو ل کالجز اور دیگر تعلیمی اداروں کی انتظامیہ ، سکول بس اور وین والوں سے خیریت دریافت کرتے رہے جبکہ اپنے طور پر اربن ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے والے وہ طلبہ و طالبہ جن کے پاس موبائل نہیں تھے ان کے والدین پورا دن پریشانی کے عالم میں اپنے بچوں کی راہ تکتے رہے ۔ تعلیمی اداروں کے بچوں کے علاوہ فائر بریگیڈ ، ایمبولینسز ، جیل قیدیوں کی بسیں، پولیس کی گاڑیاں ، ڈولفن اور پی آ ر یو سکواڈ ،اور دیگر امدادی ٹیمیں بھی ٹریفک جام میں کئی گھنٹے پھنسی رہیں۔ سارا دن سٹی ٹریفک پولیس کی جانب سے ہر قسم کا جتن کرنے کے بعد بھی ٹریفک کا نظام معمول پر نہیں آسکا تاہم لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ساتھ مزاکرات کے بعد ان کا احتجاج ختم ہونے اور سیاسی جماعتوں کے انتخابی جلسوں کے اختتام کے بعدسڑکوں پر خوار ہونے والے شہریوں کے رات گئے اپنی اپنی منزل مقصود پرپہنچنے کے بعد ٹریف کا بہاﺅ معمول پر آیا ۔ جیل روڈ پر ٹریفک جام کی وجہ سے سروسز ہسپتال ، کارڈیالوجی (دل ہسپتال)، کوئنز روڈ ،ٹیمپل روڈ اور لارنس روڈ وغیرہ بلاک ہونے کی وجہ سے گنگا رام ہسپتال ، شاہراءقائد اعظم ، سرکلر روڈ ، آﺅٹ فال روڈ اور راوی روڈ پر ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے میو ہسپتال ، کینال روڈ پر ٹریفک کا شدید دباﺅ ہونے کی وجہ سے جناح ہسپتال اور ڈاکٹرز ہسپتال جبکہ فیروز پور روڈ پر ٹریفک کا نظام درہم برہم ہونے کے باعث جنرل ہسپتال میں مریضوں کو لانے اور لیجانے کے حوالے سے شدید پریشانی کا سامنا رہا اور متعد د مریضوں کی حالتیں انتہائی تشویشناک ہو گئیں جس پر ورثاءکی جانب سے ٹریفک جام اور اس کا سد باب نہ کرےنے پر ٹریفک پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتارہا ۔ ٹریفک جام کے حوالے سے پولیس حکام کا کہنا تھا کہ آزادی کپ کی سکیورٹی تیاریوںکیلئے مختلف شاہراﺅں کو بند کیا گیا تھا جس کے کیلئے متبادل ڈائیورشن پوائنٹ بنائے گئے تھے جس سے ٹریفک کا نظام قطعی طور پر درہم برہم نہیں ہوسکتا تھا۔ فیروز پور روڈ پر واقع قذافی سٹیڈیم میں ورلڈ الیون اور قومی کرکٹ ٹیم کے درمیان میچز کی سکیورٹی فول پروف بنانے کےلئے راستے بند ہونے کی وجہ سے بھی ٹریفک کا نظام شدید متاثر ہوا۔ مال روڈ، ایمپریس روڈ، شملہ روڈ، ڈیوس روڈ، شملہ پہاڑی، ٹیمپل روڈ، فیروز پور روڈ، قرطبہ چوک، غوث الاعظم روڈ، لبرٹی مارکیٹ، کینال روڈ سمیت علاقوں میں سڑکوں پر شدید ٹریفک جام ہونے سے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی رہیں جبکہ کئی مقامات پر شہری ایک دوسرے سے الجھتے رہے۔ اس موقع پر سی ٹی او لاہور کیپٹن(ر) رائے اعجاز احمد نے کہا کہ ورکنگ ڈیز میں میچز ہونے کی وجہ سے شہر میں ٹریفک کا دباﺅ زیادہ ہو گیا ہے۔ ٹریفک دباﺅ کم کرنے کےلئے شہر بھر میں ٹریفک وارڈنز کی ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں جو ٹریفک کی روانگی کو بہتر بنانے میں مصروف ہیں۔
