لندن (وجاہت علی خان سے) سابق وزیراعظم نوازشریف پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے مشاورت کے بعد پاکستان واپسی کیلئے روانہ ہوگئے ہیں وہ آج صبح آٹھ بجے پی آئی اے کی پرواز پی کے 786کے ذریعے اسلام آباد پہنچیں گے۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ شہبازشریف اور دوسرے پارٹی رہنماﺅں کے مشورے پر پاکستان کیلئے روانہ ہوئے ہیں۔ ن لیگ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ وہ احتساب عدالت میں مقدمات کا بھی سامنا کریں گے۔ راولپنڈی کی احتساب عدالت نے انہیں 26ستمبر کو طلب کررکھا ہے جہاں سپریم کورٹ کی ہدایت پر نیب نے ان کے اور ان کے بچوں کے خلاف ریفرنس دائر کررکھے ہیں اس سلسلے میں پیشی کیلئے حتمی سمن کی تعمیل لندن میں پاکستانی ہائی کمشن کے ذریعے کرائی گئی۔ معلوم ہوا ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے بھی وطن واپس آکر مقدمات کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نوازشریف اور اسحق ڈار کی واپسی کے حوالے سے لندن میں گزشتہ روز پارٹی رہنماﺅں کا جو اجلاس ہوا اسمیں میاں شہبازشریف نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں ملکی سیاسی صورتحال پر غور کے علاوہ شہبازشریف نے اپنے بڑے بھائی کو پاکستان میں ہونے والی ملاقاتوں اور ان کے نتائج سے آگاہ کیا۔ اجلاس میں انہیں پاکستان میں قائم ہونے والے مقدمات اور وکلا کی رائے بارے بتایا گیا رہنماﺅں سے مشورے کے بعد اسحق ڈار نے بھی وطن واپسی کا فیصلہ کیا اور ان سطور کی اشاعت تک وہ وطن پہنچ چکے ہونگے۔ کیونکہ وہ نوازشریف کی روانگی سے قبل ہی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ طیارے میں سوار ہوگئے تھے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ فیصلہ آج لندن میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ساتھ ملاقات کے دوران لیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ کچھ پارٹی رہنماو¿ں نے نواز شریف کو نیب عدالت میں پیش نہ ہونے کا مشورہ دیا تاہم اس کے باوجود انہوں نے پیش ہونے کا فیصلہ کیا۔ذرائع نے بتایا کہ شہباز شریف اپنے شیڈول کے مطابق 28-30 ستمبر کے درمیان وطن واپس آئیں گے جبکہ حسن اور حسین نواز لندن میں والدہ کلثوم نواز کے ساتھ ہی رہیں گے۔انہوں نے بتایا کہ وطن واپسی کے بعد نواز شریف اعلیٰ سطح کا سیاسی اجلاس بھی طلب کریں گے۔ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ وطن واپسی کے بعد ن لیگ سیاسی لائحہ عمل کا اعلان کرے گی اور بھرپور انداز میں سامنے آئے گی۔اس حوالے سے جب مسلم ن نواز کے ترجمان سینیٹر مشاہد اللہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے نواز شریف کی وطن واپسی کی تصدیق کی۔مشاہد اللہ نے کہا کہ نواز شریف پاکستانی رہنما ہیں اور پاکستان کے سب سے مقبول ترین رہنما ہیں جن کے ساتھ ناانصافی ہوئی۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف پاکستانی میں اپنا کردار ادا کرنے آرہے ہیں، وہ ن لیگ اور پاکستانی عوام کے قائد ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ان کی واپسی کے ساتھ ہی لندن سے بیٹھ کر پارٹی چلانے کی باتیں غلط ثابت ہوگئیں۔نواز شریف بیگم کلثوم نواز کی عیادت کے سلسلے میں لندن میں موجود تھے جن کا کینسر کا علاج جاری ہے۔اس سے قبل نواز شریف اور شہباز شریف کی ون آن ون ملاقات ہوئی جس میں مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مستقبل اور آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کیا گیا۔ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی نواز شریف کو پاکستان کے سیاسی حالات اور زمینی حقائق سے آگاہ کیا۔وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے لندن جانے سے قبل مولانا فضل الرحمان، چوہدری نثار علی خان، خواجہ سعد رفیق اور خواجہ حارث سمیت دیگر اہم رہنماو¿ں سے سیاسی امور اور ملکی سیاسی حالات پر صلاح مشورہ کیا تھا جبکہ ایک غیر سیاسی شخصیت سے بھی ان کی اہم ملاقات ہوئی تھی۔ پانامہ کیس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کل (منگل) کو احتساب عدالت میں پیش ہوں گے جبکہ وزیرخزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کو عدالت نے آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں آج (پیر) کو طلب کر رکھا ہے ،سابق وزیراعظم کی احتساب عدالت پیشی کے موقع پر خصوصی سیکیورٹی پلان مرتب کیا جائے گا ،جوڈیشل کمپلیکس جی الیون اور احتساب عدالت کی سیکیورٹی رینجرز کے سپرد کردی جائے گی ،جوڈیشل کمپلیکس میں سیاسی کارکنوں کے داخلے پر پابندی ہوگی ،احتساب عدالت نےتین ریفرنسز میں نوازشریف، حسین ، حسن ، مریم اور کیپٹن (ر) صفدر کو طلب کر رکھا ہے ۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ہم پر کرپشن یا کمیشن کا کوئی کیس نہیں ہے ، ہم نے قوم کا کوئی پیسہ نہیں کھایا ، ہمارے خلاف 1972 کے کاروبار کے معاملات پر ریفرنس بنائے جا رہے ہیں، ہمارے خلاف بات پانامہ سے شروع ہوئی مگر سزا اقامہ پر کیوں دی گئی، ہمارے خلاف ایک جج نے فیصلہ دیا ، اپیل بھی انہوں نے سنی اور نگران بھی اب وہ خود ہی بن گئے ہیں، یہ انصاف کا کون سا طریقہ ہے کہ ہمیں ناکردہ گناہوں کی سزا دی جا رہی ہے۔ نواز شریف وطن واپسی کے لئے ہیتھرو ائرپورٹ روانہ ہوگئے ہیں، روانگی سے قبل میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میرا ایساارادہ نہیں تھاکہ لندن بیٹھارہوں گااورواپس نہیں جاوں گا ، میں تو یہاں اہلیہ کی تیماردار ی اور علاج کے لئے آیا تھا اور اب میں واپس جا رہاہوں ۔ ہم نے قوم کا پیسہ کھایا ہے اور نہ ہی ٹھیکوں میں کبھی پیسے کمائے ہیں، ہمارے خلاف کوئی بھی بات ثابت نہیں ہوسکی ۔یہ کس قسم کا احتساب ہے کس قسم کا انصاف ہے ؟ ہمارے خلاف دائر کیے گئے ریفرنس کس قسم کے ریفرنس ہیں؟ پیسے کھانے کے یا کمیشن کے ریفرنس ہوتے یاتو ٹھیکے میں پیسا کمایاہوتا، کچھ نہیں ہے ۔ہمارے 1972کے کاروبار کے معاملات کے گرد چیزیں گھمائی جا رہی ہیں۔ :بات پاناما کی تھی تو نا اہلی کی سزا بھی پاناماپر ہونی چاہیے تھی۔سزا پاناما کے بجائے اقامہ پر کیوں ہوئی ، سوچنے کی بات ہے۔ہم نے عدالت میں بار بار کہا کرپشن ،کک بیک یا کمیشن کا کیس نہیں ،ہم نے کوئی کرپشن نہیں کی ،سرکاری پیسا نہیں کھایامگر پھر بھی سزا دے دی گئی۔ عجیب طریقہ کار ہے کہ جن ججوں نے ہمارے خلاف فیصلہ دیا وہی ہماری اپیل سننے کے لئے موجود تھے اسی طرح جہاں بھی یہ یہ معاملہ جائے گا تو آگے بھی خود ہی موجو د ہوں گے ۔