تازہ تر ین

96ہزار پاکستانی دنیا کی سب سے مہلک بیماری کا شکار

اسلام آباد (خصوصی رپورٹ)پاکستان میں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران ایڈز کے موذی وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد میں آٹھ ہزار سے زائد کا اضافہ ہوا ہے لیکن اس مرض سے متعلق کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔بین الاقوامی اداروں کی مدد سے سرکاری سطح پر جمع کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2016 سے جون 2017 تک ملک میں ایچ آئی وی/ ایڈز کے 8076 نئے کیس رپورٹ ہوئے جن میں صوبہ پنجاب 3875 مریضوں کے ساتھ سرِفہرست ہے۔اس دوران سندھ میں نئے مریضوں کی تعداد 2521، خیبر پی کے میں 881 اور بلوچستان میں 291 بتائی گئی ہے۔ سرکاری اندازوں کے مطابق ملک بھر میں ایڈز کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 96 ہزار کے لگ بھگ ہے لیکن اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
چنیوٹ (ڈسٹرکٹ رپورٹر) چنیوٹ کے ایک گاﺅں میں گزشتہ 3ماہ کے دوران ایڈز میں مبتلا 17افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جن میں ایک ہی خاندان کے 7افراد بھی شامل ہیں۔ چنیوٹ کے چک 127بھٹی والا میں یہ مہلک بیماری عطائی ڈاکٹروں کی وجہ سے پھیلی۔ گاﺅں میں کھلے ہوئے عطائی ڈاکٹروں کے 7کلینکس پر ایک ہی سرنج سے لوگوں کو انجکشن لگائے جاتے رہے۔ ایڈز سے متاثرہ مریضوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق محکمہ صحت پنجاب کو 6ماہ پہلے ہی اس معاملے کی خبر ہوگئی تھی‘ جب اس گاﺅں میں ابتدائی طور پر ایڈز کے 12مریضوں کا انکشاف ہوا تھا لیکن صوبائی محکمہ صحت نے فوری طور پر کوئی ایکشن لینے کی بجائے معاملے کو دبائے رکھا۔ مقامی سیاسی رہنما طارق ڈاہر کے مطابق اس وقت بھی صرف ضلع چنیوٹ میں اڑھائی ہزار سے زائد عطائی ڈاکٹر لوگوںکی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ چنیوٹ کے ایک ہی گاﺅں میں ایڈز سے متاثرہ 300سے زائد مریضوں کے انکشاف پر ضلع بھر میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ مقامی ذرائع نے اس سلسلے میں بتایا کہ چنیوٹ شہر سے 15کلومیٹر دور فیصل آباد روڈ پرواقع چک 127بھٹی والا میں جٹ تارڑ قوم آباد ہے۔ اس گاﺅں کی آبائی اڑھائی ہزار نفوس کے لگ بھگ ہے۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران اس گاﺅں میں ایڈز کے شکار 17افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ مرنے والوں میں ایک ہی خاندان کے 7افراد بھی شامل ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران ایچ آئی وی ٹیسٹ کیلئے اس گاﺅں سے 360افراد کے نمونے لئے گئے جن میں سے ابتدائی طور پر 50افراد کا ایچ آئی وی ٹیسٹ پازیٹو نکلا جبکہ ہفتہ کے روز مزید 30افراد کی رپورٹ پازیٹو آئی ہے۔ ہفتے کے روز 7مریض لاہور منتقل کئے گئے جن میں ثوبیہ‘ ذوالفقار‘ عذرا‘ جعفر‘ چار سالہ حسن علی‘ دس سالہ خالدہ اور 17سالہ یٰسین شامل ہیں۔ ان میں سے موخرالذکر تینوں بچے آپس میں حقیقی بہن بھائی ہیں۔ ایڈز سے متاثر ہونے والوں میں بزرگ‘ خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ گاﺅں میں ایڈز جیسا مہلک مرض پھیلنے کی اصل وجہ عطائی ڈاکٹر ہیں۔ گزشتہ کافی عرصے سے اس گاﺅں میں عطائی ڈاکٹروں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ گاﺅں میں عطائی ڈاکٹروں کے 7کلینک تھے اور ان سب پر آنے والے مریضوں کو ایک ہی سرنج سے انجکشن لگائے جاتے تھے۔ یہاں کلینک چلانے والا ایک عطائی ڈاکٹر تو اپنے ملنے جلنے والوں کو ببانگ دہل کہا کرتا تھا کہ وہ روزانہ میڈیکل سٹور سے مختلف قسم کی ایک کلو گولیاں اور تین سرنجیں لے کر جاتا ہے اور ہر مریض کو انہی سرنجوں سے انجکشن لگاتا ہے۔ اسی طرح ایک عطائی ڈاکٹر نے اپنے کلینک کے باہر لگائے گئے بورڈ پر خود کومختلف اخبارات‘ نیوز چینل کے بورڈ لگا رکھے ہیں‘ اور خود بیورو چیف بھی لکھ رکھا تھا، تاکہ کوئی سرکاری ٹیم اس پر بھی ہاتھ نہ ڈال سکے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہی عطائی ڈاکٹر چک 127 بھٹی والا میں موت بانٹنے کا سبب بنے ہیں۔ کیونکہ علاقے بھر میں اس گاﺅں کی عمومی شہرت بہت اچھی ہے۔ یہاں کے رہائشی شریف اور بھلے مانس لوگ ہیں۔ یہاں ایڈز پھیلنے کی اب تک کوئی غیر اخلاقی وجہ سامنے نہیں آسکی ہے۔ ذرائع کے مطابق پنجاب حکومت نے اس کیس کا فوری نوٹس لیا ہے۔ ایک آدھ روز میں یہاں پنجاب گورنمنٹ کاموبائل ہسپتال بھی منتقل کیاجارہا ہے۔ پورے گاﺅں کو سیل کرکے قریبی دیہات کے لوگوں کی یہاں آمدورفت روک دی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر متاثرہ افراد کو علاج کیلئے لاہور منتقل کیاجارہا ہے،مقامی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ چھ ماہ قبل جب پہلی بار چک 127 بھٹی والا میں ایڈز کے 12مریضوں کا انکشاف ہوا تو میڈیا میں اس کی خبر آنے پر صوبائی محکمہ صحت کو بھی اطلاع مل گئی تھی۔ لیکن محکمہ صحت اس معاملے کو دبانے کی کوشش کرتا رہا۔ میونسپل کمیٹی چنیوٹ میں اپوزیشن لیڈر طارق ڈاہر نے بتایا کہ ہماری اطلاع کے مطابق چھ ماہ پہلے وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے محکمہ صحت کو اس گاﺅں میں لوگوں کی اسکریننگ اور ٹیسٹ کرنے کی ہدایت کی گئی، لیکن محکمہ سویا رہا۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ اس گاﺅں میں اب تک ایڈز کی وجہ سے ہونے والی 17ہلاکتوں کا اصل ذمہ دار محکمہ صحت ہے۔ لہٰذا اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ چنیوٹ میں صورتحال اس قدر خراب ہے کہ اس وقت بھی ضلع میں 2500 عطائی ڈاکٹر کام کررہے ہیں۔ پنجاب حکومت کو فوری طور پر ان کے خلاف کریک ڈاﺅن کرنا چاہیے۔ دوسری طرف پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام میں موجود ایک بااعتماد ذرائع نے بتایا کہ یہ خیال درست نہیں ہے کہ ملک بھر میں ایڈز کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت اس سلسلے میں گاہے گاہے لوگوں کے خون کے نمونے لے کر ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔ تقریباً آٹھ ماہ پہلے پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام نے جنرل پبلک میں 17ہزار افراد کے نمونے لئے۔ یہ سب نارمل لوگ تھے ، ان میں کوئی نشے کا عادی، ہم جنس پرست یا غیر اخلاقی سرگرمیوں میں مبتلا شخص شامل نہیں تھا۔اس کے علاوہ ہیپاٹائٹس سے متاثرہ تقریباً 34ہزار مریضوں کا بھی ایچ آئی وی ٹیسٹ کیاگیا۔ ٹیسٹ کا رزلٹ آنے پر پتاچلا کہ جنرل پبلک میں یہ مہلک مرض نہ ہونے کے برابر ہے۔ اہم بات یہ تھی کہ ہیپاٹائٹس سے متاثرہ مریضوں کا 750 طلبہ کے ٹیسٹ کئے گئے جن میں سے کسی کا بھی ایچ آئی وی پلازیٹونہ نکلا۔ اس لئے یہ بات پوری ذمہ داری سے کہی جاسکتی ہے کہ عوام الناس میں یہ مرض نہ ہونے کے برابر ہے۔ البتہ معاشرے کے جن طبقات میں یہ مرض جڑ پکڑرہا ہے ، انہیں ہم ” ہائی رسک گروپس“ کانام دیتے ہیں ۔ ان گروپس میں ٹرانس جینڈرز(خواجہ سرا)،لیڈی سیکس ورکرز، ہم جنس پرست اور انجکشن کے ذریعے نشہ کرنے والے افراد شامل ہیں۔کچھ عرصہ پہلے پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت جب ان طبقات کی اسکریننگ کی گئی تو ایڈز میں مبتلا ہونے کی بلند ترین شرح ان لوگوں کی نکلی جو سرنج کے ذریعے نشہ کرتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر ٹرانس جینڈرز، تیسرے نمبر پر ہم جنس پرست اور سب سے کم شرح لیڈی سیکس ورکرز کی ہے جو ایک فیصد سے بھی کم نکلی۔ اس سلسلے کا آخری گروپ ایڈز سے متاثرہ ماں سے بچے میں بیماری کا منتقل ہوناہے۔ لیکن اگر بچے کی پیدائش سے قبل ہی ماں کے بارے میں پتہ چل جائے کہ وہ ایڈز کی مریضہ ہے تو ادویات کے ذریعے بچے کو اس مرض سے بچایا جاسکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ذریعے نے بتایا کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ پورا ملک ہی اس مرض سے پاک ہے۔ بلکہ کبھی کبھار مختلف علاقوں میں ایسی Pockets سامنے آجاتی ہے جہاں مرض پھیلنے کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ جیسے چک 127 بھٹی والا میں ایڈز کا سبب عطائی ڈاکٹر بنے ہیں۔ جبکہ 11-2010ءمیں گجرات کے علاقے جلالپور جٹاں میں بھی ایڈز کے متعدد مریض سامنے آئے تھے، لیکن وہاں ایڈز کا سبب کچھ لیڈی سیکس ورکرز بنی تھیں۔“ محکمہ صحت کی عدم توجہ ڈیڑھ درجن سے زیادہ دیہات گلہڑ کی مہلک بیماری میں مبتلا۔سینکروں سے زائد افرادمیں مہلک بیماری کا انکشاف ضلع چنیوٹ کے نواحی چک نمبر 127بھٹی والے میںتقریبا پچاس سے زائد افراد کو ایڈ ز کی بیماری کا حملہ جہاں موت کی تلوار لٹک رہی ہے وہاں چنیوٹ کے کئی اور نواحی علاقہ جات میں گلہڑکی وبا ءنے ڈیڑے ڈال لئے پور ے علاقے میںبیماری کی وجہ سے خوف وہراس تفصیلات کے مطابق چنیوٹ کے نواحی علاقہ چک نمبر 127بھٹی والا میں چند ماہ پہلے چند لوگوں ایڈز اور ہیپاٹائٹس کی بیماری کا انکشاف ہوا تو محکمہ ہیلتھ کو میڈیا نے جگایا تو اس دیہات کے لوگوں کے سیمپلز لئے تو رزلٹ آنے پر پتہ چلا کہ تقریبا پچاس سے زائد لوگوں میں ایڈز کی بیماری پائی گئی ہے جس کی وجہ سے پورے علاقے میں لوگوں میں خوف وہراس پھیل گیا ابھی یہ تلوار لوگوں کے سروں پر منڈلا رہی ہے جس کی وجہ سے لوگ بہت پریشان ہیں محکمہ صحت کی عدم توجہی کے باعث تقریباڈیڑھ درجن سے زائد دیہات مختلف ا مراض میں مبتلاہو رہے ہیں دریائے کے کنارے بسنے والے ہزاروں افراد میں گلہڑ کی بیماری کا انکشاف ہوا ہے بتایا جا رہا ہے کہاس بیماری کے پھیلنے کا خطرہ ہے ایک رپورٹ کے مطا بق تین سینکڑوں کے لگ بھگ جن میں بچے ،بوڑھے ،مرد اور عورتیں شامل ہیں ان علاقوں میں حکومت کی جانب سے اب تک محکمہ ہیلتھ کی جانب سے کوئی کیمپ نہیں لگایا گیا ہے لہذا ان علاقوں میں محکمہ صحت فی الفور حفاظتی کیمپ لگا کر لوگوں کو ان مہلک بیماریوں سے بچائے اگر ایس انہ ہوا تو کئی اور دیہات بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں محکمہ ہیلتھ سے رابطہ کیا تو ہیلتھ آفیسر کا کہنا تھا کہ یہ مرض آیوڈین کی کمی کے باعث پھیل رہی ہے ۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain