تازہ تر ین

تقسیم ہند سے قبل کے انارکلی بازار بارے دلچسپ رپورٹ

لاہور (خصوصی رپورٹ) تقسیم سے قبل انارکلی بازار سمیت شہر کی مارکیٹوں اور اداروں میں ہندو تاجروں کا کنٹرول تھا۔ مسلمان تاجروں کی کنی چنی دکانیں تھیں۔ جوتوں کے کاروبار پر مسلمانوں کی اجارہ داری تھی۔ البتہ مسلمان تاجر اتنے بھی کم نہ تھے کہ جتنے ہمیں بتائے جاتے ہیں۔ انارکلی بازار میں مسلمان رﺅسا کی بڑی جائیدادیں تھیں۔ شہر کے باسی لوہاری دروازے کے راستے سرکلر روڈ عبور کرکے انارکلی میں داخل ہوتے تھے جبکہ راج گڑھ‘ کرشن نگر‘ اچھرہ‘ مزنگ‘ ماڈل ٹاﺅن سمیت دیگر علاقوں سے آنے والے مال روڈ‘ کچہری روڈ اور نیلا گنبد کی طرف سے انارکلی بازار داخل ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ لوگ گنپت روڈ‘ پیسہ اخبار‘ ایبک روڈ دھنی را روڈ اور آبکاری روڈ سے بھی انارکلی بازار میں داخل ہوتے تھے۔ انارکلی بازار میں کپڑوں کی مشہور دکانوں میں دونی چند اینڈ سنز‘ راجا اینڈ برادرز‘ موہن لال اینڈ سنز‘ کراچی کلاتھ ہاﺅس‘ درگاداس اینڈ کمپنی اور ممبئی کلاتھ ہاﺅس کی دکانیں شامل تھیں۔ ان دکانوں پر ہر قسم کا ہندوستانی‘ ولایتی‘ جاپانی اور دیگر ممالک کا کپڑا دستیاب تھا۔ قیمتیں آج کے مقابلے میں بہت ہی کم تھیں۔ 1930-40 کی دہائی میں ایک اعلیٰ معیار انگلش وولن سوٹنگ کا ریٹ پانچ سے سات روپے فی گز تھا جبکہ عمدہ ترین ریشمی کپڑا جسے دو گھوڑا بوسکی کہا جاتا تھا بارہ آنے گز مل جاتا تھا۔ انارکلی بازار میں ساڑھیوں کی مشہور دکان میسرز اوشناک مل مولچند تھی۔ جن کی پراری دکان کناری بازار لاہور میں تھی۔ سلک اور ساڑھیوں کی یہ بہت بڑی دکان تھی۔ ساڑھیوں میں مشہور فرانسیسی جیورجٹس اور شیفونز ایک روپے گز اور بہترین ولایتی ٹائیگر برانڈ سوتی وائل چھ آنے گز مل جاتی تھی۔ کاٹن شرٹنگ کی بڑی تعداد جیسے پالین‘ نویل‘ ٹو برالکو‘ ایرٹیکس وغیرہ چھ سے آٹھ آنے فی گز تھی۔ چابی مارکہ ولایتی لٹھا جو اس زمانے میں بہت مشہور تھا چار آنے فی گز اور پگڑیوں کیلئے عمدہ ململ چار آنے فی گز دستیاب تھی۔ انارکلی میں جوتوں کی سب سے بڑی اور مشہور دکان بھلے دی ہٹی تھی۔ ہندو جوتوں کے کاروبار کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ بھلے دی ہٹی کا مالک دھی رام بھلہ لاہور کا وہ پہلا ہندو تھا جس نے اس ممنوعہ کاروبار کا آغاز کیا اور خوب ترقی کی۔ بھلے دی ہٹی انارکلی بازار کی پہچان تھی۔ راقم کے آرکائیو میں بھلے دی ہٹی کے بیسیوں اشتہار محفوظ ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ دھنی رام بھلہ اپنی دکان کی مشہوری اشعار کے ذریعے بھی کرتا تھا۔ بھلے دی ہٹی انارکلی بازار کے علاوہ مال روڈ پر بھی تھی۔ 1940ءمیں 30اکتوبر کو عید اور 2 نومبر کو دیوالی تھی۔ اس موقع پر دھنی رام بھلے نے بھلے دی ہٹی کی طرف سے جو اشتہار شائع کیا اس کی ہیڈنگ ہے۔ ”سانجھی عید دیوالی” بھلے دی ہٹی کے اشتہارات پر جوتوں کے ڈیزائنوں کی تصویروں کے علاوہ قیمتیں بھی درج ہیں جو پانچ سے پندرہ روپے تک ہیں۔ بھلے دی ہٹی کے باہر ایک بڑا بوٹ رکھا ہوتا تھا جس پر لکھا ہوتا تھا کہ جس کے پاﺅں میں آئے وہ لے جائے۔ انارکلی بازار میں جوتوں کی دوسری بڑی دکان ”کرنال شاپ“ تھی جو لاہور میں مسلمانوں کی سب سے بڑی جوتوں کی دکان تھی اس کے سائن بورڈ کے الفاظ بھی لاہور میں سب سے بڑے سائز کے تھے جو تاج الدین زریں رقم نے لکھے تھے۔ یہاں جگر اور جوش آکر بیٹتے تھے۔ کرنال شوز کے مالک ”عبدالمالک“ تھے۔ تیسرے نمبر پر چیف بوٹ ہاﺅس‘ چوتھے نمبر پر کاش شوز فیکٹری کا تھا۔ پانچویں نمبر پر مالوہ شو کمپنی تھی۔ چھٹے نمبر پر ڈلہوزی شوز اور اس کے بعد باٹا شوز کمپنی تھی۔ باٹا شوز کمپنی خصوصیت سے ربڑ‘ کینوس شوز بناتے تھے جو عام لوگوں کی ضروریات پوری کرتے تھے۔ تقسیم سے قبل خواتین بہت کم جوتوں کی دکانوں پر جاتی تھیں۔ عام طور پر شوہر‘ باپ یا بھائی کاغذ پر پاﺅں کا ناپ لے لیتا اور خود اپنی پسند کی جوتی خرید کرلے آتا۔ عموماً سائز پورے ہوتے‘ بعض اوقات سائز میں کمی بیشتی یا ڈیزائن پسند نہ آنے پرجوتا تبدیل کروا لیا جاتا۔ راقم کے آرکائیو میں کرنال شاپ‘ چیف بوٹ ہاﺅس‘ پرکاش شوز‘ بالوہ شوز‘ ڈلہوزی شوز اور باٹا کمپنی انارکلی کی دکانوں کے اشتہارات محفوظ ہیں۔ اس دور کے اشتہارات پر جوتوں کے ڈیزائن کے ساتھ دکان میں موجود جوتوں کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ قیمت درج ہوتی تھی جس کا مقصد گاہک کو آگاہ کرنا ہوتا تھا کہ وہ قیمت پوچھنے کی بجائے خریداری کرنے آئے۔ مزید یہ کہ جوتے بذریع ڈاک اور پارسل منگوانے کی سہولت بھی تھی۔ انارکلی بازار میں میڈیکل کی دو مشہور دکانیں ایک بیلی رام اینڈ سنز کیمسٹ دوسری نارائن اینڈ بھگوان داس کیمسٹ تھیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain