حافظ آباد (میاں فضل احمد ارائیں سے) خبریں ہیلپ لائن کی ٹیم متاثرہ خاندان کے گھر پہنچ گئی۔ محکمہ زراعت شیخوپورہ کا جنگلی افسر 4خواتین کی عزتیں خراب کرکے تشددکرکے طلاق دے چکا ہے۔ خواتین کو اپنے دوستوں اور افسروں کو پیش کرنے کےلئے تیار کرتا انکار پر ساری ساری رات تشدد، شراب اور چرس پینے پر مجبور کرتا انکار کرنے پر بال پکڑ کر چارپائی کے نیچے رکھ کر ساری رات سوتا، سرکاری گاڑی شراب اور اسلحہ کی خریدوفروخت کےلئے استعمال کرتا۔ 2 افرادکو قتل کرچکا۔ بھائی کو قتل کرنے کی دھمکیاں دیتا جس وجہ سے ظلم و تشدد برداشت کرتی رہی 3سال سے ظلم سہنے والی یتیم بچی کی خبریں سے گفتگو۔ حافظ آباد کے نواحی گاﺅں کالیکی منڈی کے رہائشی پولیس کانسٹیبل ریاض احمد مرحوم کی بیٹی راحیلہ نے خبریں سے گفتگوکرتے ہوئے بتایا کہ یہ تقریباًڈیڑھ ماہ کی تھی کہ ان کا والد وفات پاگیا ان کی والدہ نے گھروں میں کام کاج کرکے ان کوپالا یہ تین بہنیں اور ایک بھائی ہے۔ غربت کی وجہ سے میری والدہ نے میری شادی محکمہ زراعت شیخوپورہ کے ملازم ظفر جس کی عمر تقریباً51سال تھی کے ساتھ کردی جبکہ اس وقت اس کی عمر تقریبا20/21سال تھی۔ ظفر نے اس وقت اسکی والدہ کبریٰ بی بی کو بتایا کہ اس کی دوشادیاں پہلے ہوئی تھیں دونوں بیو یوں کو اولاد نہ ہونے کی وجہ سے طلاق دے دی نہ اسکا کوئی بھائی ہے اورنہ ہی بہن۔ رشتہ کروانے والی مائی کے ذریعہ ان کا رشتہ طے ہوا تھا ظفر نے شادی کے چند یوم بعدہی اس پر تشدد شروع کر دیا اس کو شراب پینے پر مجبورکرتا سگریٹ میں چرس بھر کر دیتا کہ اس کو پیو وہ انکار کرتی تو اس پر تشددکرتا اورکہتاکہ اگر اس نے اس کی بات نہ مانی تواس کے بھائی کو قتل کرو ادے گا اس نے پہلے بھی دو افراد کو جھنگ کے نواحی گاﺅں خالد آباد (کڑیانہ)میں قتل کیا۔ اس کا خاندان انتہائی جرائم پیشہ ہے وہ انتہائی بااثر ہے رسہ گیر ہے ڈکیتی ان کےلئے کوئی کام نہیں شادی کے بعد اس پر واضح ہوا کہ اس نے چار شادیاں روحی، شاہدہ بی بی، عالیہ بی بی اور انیلہ بی بی سے کی تھیں ان پر تشدد کرتا تھا اور ان کو بھی طلاقیں دے دیں۔ راحیلہ بی بی کے مطابق اس نے گھرکا ایک کمرہ عیاشی کےلئے وقف کیا ہوا تھا جہاں لڑکیاں اورلڑکے آتے اور عیاشی کرتے گھر میں شراب کی بہتات تھی شراب کی پیٹیاں اور اسلحہ گھر میں ہر وقت موجود رہتا۔ اس کو مجبور کرتا کہ وہ ان کے دوستوں کے پاس جائے انکاری پر تشددکرتا۔ سر کے بال پکڑکر چارپائی کے نیچے رکھ کر آپ اوپر سوجاتا۔ ایک ماہ قبل اس کی والدہ اسکے گھر آئی تو اس نے اپنے اوپر ہونے والے تشدد کے متعلق بتایا مگر اس کی والدہ نے کہا کہ بیٹا یہ آپ میاں بیوی کے معاملات ہیں۔ اس کے ایک روز بعد میں نے اپنی والدہ کوکال کی کہ ظفر نے اس پر تشدد کی آخیر کردی ہے۔ راحیلہ کی والدہ کبریٰ بی بی نے بتایا کہ رات تقریبا9/10بجے کے قریب اس کے داماد ظفر کی کال آئی کہ تمہاری بیٹی کو مار کر پھینک دیا ہے اس کو اٹھا کرلے جاﺅ کہ وہ شیخوپورہ کا رہائشی نہیں بعد میں تمہیں اس کی نعش بھی نہیں ملے گی جس پر وہ کرایہ پر ٹیکسی لے کر موقع پر پہنچے اس کے ساتھ اسکا بیٹا وحید اور بڑی بیٹی تھی تو اس نے گھرکو تالا لگایا ہوا تھا دروازہ کھٹکٹھایا تو اس نے دروازہ نہ کھولا بڑی مشکل سے دروازہ کھولا تو اس کی بیٹی راحیلہ شدید زخمی تھی اس کو لانے لگے تو اس نے ان کو روک لیا اوران پربھی تشدد شروع کردیا بڑی مشکل سے حافظ آباد پہنچے تک اس نے زخمی بیٹی کو علاج معالجہ کےلئے ڈاکٹر کے پاس لے گئی تو اس کا جبڑا ٹوٹا ہوا تھا، سر پھٹا اور ہونٹ بھی تشدد کی وجہ سے شدید زخمی تھے۔ بعد میں اس رنجش پر کہ راحیلہ کو کیوں لے گئی ہے تو ان کو پریشرائزڈ کرنے کےلئے تھانہ شیخوپورہ میں جھوٹا مقدمہ درج کروادیا اور بعدازاں پولیس کے ریڈ شروع کروا دئےے وہ اس بااثر شخص کی وجہ سے انتہائی پریشان ہیں ان کو ڈر ہے کہ وہ اس کے بیٹے ظفرکو کہیں قتل نہ کروا دے اور جھوٹے مقدمات میں پھنسوا کر ذلیل کرنا چاہتاہے۔ راحیلہ کی والدہ کبریٰ نے روزنامہ خبریںکی ہیلپ لائن پر فون کرکے اس ظلم کے متعلق بتایا توخبریں کی ٹیم متاثرہ خاندان کے گھر کالیکی منڈی حافظ آباد پہنچ گئی ۔اس سلسلہ میں ظفر ملازم محکمہ زراعت سے فون کرکے موقف پوچھا تواس نے کہا کہ راحیلہ اس کی بیوی ہے اس کے بھائی وحید کے خلاف تھانہ شیخوپورہ میں ایف آئی آر درج کروائی ہے اس کی اس سے پہلے 2شادیاں ہوئی تھیں اولاد نہ ہونے کی وجہ سے طلاق دے دی تشددکا الزام بے بنیاد ہے۔ شراب، چرس اور عیاشی کےلئے دوستوں کو پیش کرنے کا الزام بے بنیاد ہے یہ محکمہ زراعت شیخوپورہ میں بطور لیب اسسٹنٹ تعینات ہے۔ راحیلہ اور اسکی والدہ کبریٰ کے الزام بے بنیاد اور من گھڑت ہیں۔