لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئےمعروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ لندن پلان کی ”ٹرم“ پرانی ہے۔ سیاسی ماحول میں جب بھی چند لیڈران لندن جمع ہو کر بات چیت کرتے ہیں تو اسے ”لندن پلان“ کا نام دے دیا جاتا ہے۔ لندن کو ایک محفوظ مقام تصور کیا جاتا ہے۔ اس لئے لیڈران وہاں جا کر میٹنگ کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے لیڈران لندن میں جمع ہوئے اور انہوں نے میٹنگ کی۔ ہمارے نمائندگان وجاہت علی خان اور شمع جونیجو جو لندن میں موجود ہیں۔ ہم ان سے بات کر کے وہاں کی موجودہ صورتحال جان لیتے ہیں۔ اطلاع یہ ہے کہ مائنس نواز فارمولا فیل ہو گیا ہے۔ مریم نواز کو نرم ہاتھ رکھنے کا کہا گیا ہے اور اداروں کے ساتھ ٹکراﺅ کی پالیسی کو ختم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ ہمارے نمائندگان مسلم لیگ (ن) کے قریبی حلقوں سے انٹرویو کر کے ”فرسٹ ہینڈ انفارمیشن“ دیں گے مسلم لیگ نے فیصلہ کیا ہے کہ شہبازشریف کو وزیراعظم اور مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیا جائے گا۔ نواز شریف کے وطن واپسی رویے سے فیصلہ ہو گا کہ ان کی سوچ تبدیل ہوئی ہے یا نہیں اطلاع یہ ہے کہ بہت تیزی کے ساتھ ہمارے ملک کے حالات تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ چند ماہ کے دوران وسیع پیمانے پر مقدمات کے اندراج ہوں گے صف اول، بلکہ صف دوئم کے لوگوں کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔ قرقی کرنا عدالت کا پہلا قدم ہوتا ہے۔ حسین اور حسن نواز کی جائیداد منجمد کر دی جاتی ہے تو پیغام یہ جائے گا کہ نوازشریف کے خلاف عدالتی گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ میاں صداقت قانونی جنگ لڑیں تو بہتر ہے۔ عدالتی ٹیم کے سامنے سرنڈر کریں۔ اور دوبارہ عوام کے پاس جائیں اور ان سے فیصلہ لیں۔ اگر عوام انہیں مینڈیٹ دیں تو وہ دوبارہ آ جائیں۔ ہم الیکشن کمیشن کا احترام کرتے ہیں۔ ہم نے عمران کو دوستانہ مشورہ دیا کہ وہ ادارے کے سامنے پیش ہوں۔ وہ پیش ہو گئے۔ اس سے ادارے کا وقار بھی قائم رہا اور انہیں بھی معافی مل گئی۔ معذرت کے ساتھ الیکشن کمیشن کے دو طرح کے بیانات سامنے آئے ہیں کہ ایک تو یہ کہ 5 جون کو اسمبلیاں تحلیل ہوں گی اور الیکشن جولائی میں ہوں گے۔ سیکرٹری صاحب کہہ رہے ہیں نئی حلقہ بندیوں سے پہلے الیکشن نہیں ہو سکتے حلقہ بندیاں ایک لمبا کام ہے۔ ادارہ واضح کرے کہ نئے الیکشن کن حلقہ بندیوں پر ہوں گے۔ ان کے فیصلے پر بہت سے لوگ تو سپریم کورٹ چلے جائیں گے۔ بالآحر حتمی حکم نامہ سپریم کورٹ سے لیا جائے گا کہ کتنے عرصہ میں الیکشن کروائے جائیں ضیاءالحق نے 3 ماہ میں الیکشن کروانے کا کہہ کر 10 سال لے لئے۔ چیف الیکشن کمشنر صاحب بہت اہل انسان ہیں۔ وہ یقینا ادارے کو مذاق نہیں بننے دیں گے۔ الیکشن آگے لے کر جانا یا کچھ عرصہ کیلئے ملتوی کرنے کا فیصلہ صرف سپریم کورٹ ہی کرے گا ہمارے سیاسی حلقے اسی طرف بحث کو بڑھاتے ہیں بالآخر کوئی نہ کوئی سپریم کورٹ کے پاس چلا جاتا ہے اور وہاں سے اس کا فیصلہ لیا جاتا ہے۔ الیکشن آگے جانے سے حکومتی پارٹی کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ چودھویں ترمیم کے ذریعے ارکان کو پابند بنایا گیا تھا کہ وہ پارٹی فیصلوں کے خلاف نہیں جا سکیں گے۔ ایسا کرنے پر پارٹی سربراہ اس رکن کو ”ڈی سیٹ“ کروا سکتا ہے اس لئے اسے الیکشن کمیشن کو لکھنا پڑے گا۔ مہذب ممالک میں ارکان اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں حتیٰ کہ بھارت جیسے ملک میں بھی کانگریسی رکن اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دے سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں عائشہ گلا لئی کے معاملے نے اس ترمیم کا خانہ خراب کر دیا ہے۔ اب یہ راستہ کھل گیا ہے۔ تحریک انصاف نے عائشہ کو پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ لکھ کر الیکشن کمیشن کو بھیج دیا جسے الیکشن کمیشن نے مسترد کر دیا۔ اس کا شدید نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہو سکتا ہے۔ 80,70 ارکان اگر علیحدہ ہو جاتے ہیں تو وہ اہل پارلیمنٹ ہی رہیں گے۔ عائشہ کے فیصلے نے سب کے لئے راہ کھول دی ہے۔ کراچی میں وہرا صاحب پارٹی تبدیل کر کے پی ایس پی میں چلے گئے۔ آج جس طرح اجلاس میں ہنگامہ آرائی ہوئی ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ وہرا کے ساتھ بھی بہت سارے ارکان کھڑے ہیں۔ اگر وہ تنہا ہوتا تو ان کے خلاف شور شرابا ہوتا۔ آج کی فضا سے ظاہر ہوا ہے کہ ایم کیو ایم میں بھی اب دو دھڑے سامنے آ چکے ہیں۔ وہرا اکیلے نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ بھی لوگ کھڑے ہیں۔ فاروق ستار کی مضبوط اپوزیشن پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ انہوں نے زبردست ڈرامہ کیا اور بیان دے ڈالا کہ اگر کوئی پارٹی چھوڑ کر گیا تو وہ بھی استعفیٰ دے دیں گے۔ وہرا کے حامی ان کے ساتھ ڈٹ گئے ہیں ایسا لگتا ہے کہ ایک ”آہ“ اور دوسرا ”واہ“ کی اصطلاح یہاں کام کر گئی ہے۔ اگر وہرا کی علیحدگی پر دیگر ارکان ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے اور انہیں مجبور کر دیتے کہ پارٹی کو خیرباد کہہ کر باہر چلا جائیں تو فاروق ستار کے موقف کی جیت ہو جاتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اور واضح دو دھڑے سامنے آ گئے ہیں۔ تجزیہ کار لندن شمع جونیجو نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے لندن آنے والے تمام رہنماﺅں نے نوازشریف پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ چودھری نثار لندن نہیں آئے۔ ان کی تنقید کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا رہی ہے۔ (ن) لیگ اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی پارٹی سمجھی جاتی ہے۔ لہٰذا زیادہ تر اس میں حکمران ہی پسند کرتے ہیں۔ ان پر اپوزیشن برداشت کرنے کی کم ہی قوت ہوتی ہے اب ان میں ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ گروپ سامنے آیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ لندن میٹنگ میں طے ہوا ہے کہ مریم نواز اور دیگر خواتین کو ذرا پیچھے رکھا جائے۔ اس کے بعد بات دو بھائیوں کی آ گئی ہے۔ شہباز شریف اگر وزیراعظم بھی بن جاتے ہیں تو نوازشریف پیچھے رہ کر پارٹی چلائیں گے۔ لگتا ہے۔ پارٹی کا ”رفٹ“ ابھی آگے چلے گا مریم ابھر کر آگے آ رہی ہیں۔ طلال چودھری، دانیال عزیز وغیرہ ان کے ہم خیال بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسے میں مریم کو کیسے خاموش کروایا جا سکتا ہے۔ ان کا نیا میڈیا سیل ہے۔ جی ٹی روڈ پر انہو ںنے اپنے والد کو بہت سپورٹ کیا۔ یہ چاہ رہے ہیں کہ آصف زرداری سے بھی ملا جائے۔ خبر یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی اپنی طبیعت بہت خراب ہے۔ میٹنگ میں اکثر الفاظ بھول بھی رہے تھے۔ ساتھی انہیں یاد کروا رہے تھے۔ وہ ”اسٹریس“ ہی دکھائی دے رہے تھے۔ نمائندہ لندن، وجاہت علی خان نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماﺅں نے ایک ہی موقف اپنائے رکھا ہے کہ وہ یہاں طویل گفتگو ہوئی ہے۔ اور اس میں اہم فیصلے بھی کئے گئے ہیں۔