لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ میاں محمد نواز شریف بادشاہ ہیں وہ جو چاہیں عدالتوں کے بارے کہہ سکتے ہیں کسی اور کی کیا مجال کہ اس انداز میں عدالت کے بارے بیان دے سکے۔ اگر یہی معاملہ چلتا رہا تو بڑھتے بڑھتے چھوٹی عدالتوں تک چلا جائے گا۔ لوڈشیڈنگ ختم ہونے کے بارے میں تمام علاقوں سے رپورٹ طلب کی ہے کل ضرور حقائق سامنے لائیں گے۔اویس لغاری صاحب نے اپنے والد کے نظریات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر ن لیگ میں شامل ہو گئے۔اویس لغاری بھی اس وقت عاقل بالغ تھے جب ان کے والد نے میاں نواز شریف کی حکومت پر کرپشن کا الزام لگا کر فارغ کیا۔ یہ پرویز مشرف دور میں بھی وزیر رہے۔ یہی پرویز مشرف کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملایا کرتے تھے۔ اب ان کو ساری خوبیاں مسلم لیگ ن میں دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان کی سیاست نرالی ہے، شاعر مشرق نے جو خواب دیکھا اس کو قائداعظم نے عملی صورت میں پیش کیا۔ علامہ اقبال نے جرمنی میں جا کر فلاسفی میں پی ایچ ڈی کی۔ انہوں نے اپنے کلام میں کہاجمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میںبندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے یہ جمہوریت ”فیوڈل کلڈ“ کی جمہوریت ہے سندھ میں تمام وڈیرے حکومت میں ہیں۔ پنجاب میں ذوالفقار علی بھٹو نے لوئر مڈل کلاس کے حنیف رامے اور ممتاز کاہلوں وغیرہ کو ٹکٹ دیے تھے۔ جبکہ سندھ میں تمام وڈیروں کو ٹکٹ دیے۔ کے پی کے میں پولیس کو سارے ملک میں ناموری ملی ہے۔ جنہوں نے فوج کے ساتھ مل کر اور فوج سے پہلے ہی بڑی ہمت اور جرا¿ت کا مظاہرہ کیا اور پشاور میں دہشتگردوں کے حملے پر قابو پایا۔ پرویز خٹک اور عمران خان کا مو¿قف ہے کہ کے پی کے میں پولیس کو غیرسیاسی کر دیا گیا ہے اور وہ اب کام کرتی ہے۔ دہشتگردوں کو قابو کرنے پر ہم کے پی کے کی پولیس کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ افغان مہاجرین کے آنے اور جانے کی وجہ سے پولیس کو کے پی کے میں بہت مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ افغان مہاجرین کے اکثر رشتہ دار اس جانب رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ پرویز خٹک صاحب آپ فرمائیے کہ جس سارے دہشتگرد افغانستان سے آتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ پاک فوج نے بھی کوشش کی آپ کے علم میں ہے کہ کچھ پابندیاں لگائی جانی چاہئیں۔ اسفند یار ولی سے اچکزئی تک سب نے یہ کہا کہ کے پی کے پٹھانوں کا ملک ہے اور افغانستان سے آنے والے مہاجر نہیں ہیں۔ یہ ان کا وطن ہے۔ انہیں مہاجر نہ کہیں۔ سیاست میں خاموشی کا مطلب ہوتا ہے کہ ہمارے پاس جواب نہیں ہے۔ تحریک انصاف پر عائشہ گلا لئی ایک ایم پی اے صاحب اور خود جاوید ہاشمی نے بہت الزام لگائے۔پرویز خٹک صاحب کو صوبے کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے ضرور جواب دینا چاہیے تھا۔ خاموشی کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ الزام لگانے والوں سے 50 فیصد متفق ہیں۔ سیاستدانوں کے ٹاپ آرڈر میں کوئی بھی ایک دوسرے کا مخالف نہیں ہوتا۔ سب ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ نواز شریف شہباز شریف کے قریبی چہیتے پرویز ملک کے بھائی جاوید اکرم ان کی بیگم معروف صنعتکار ہیں۔ اشرف مارتھ کے داماد ہمارے دوست محسن نقوی صاحب ہیں ”سٹی 42“ والے۔ وہ ساری عمر ایوان صدر میں بیٹھے رہے۔ آصف علی زرداری کے ساتھ، انہیں یہ طور طریقے آتے ہیں۔ وہ ا یک ذہین آدمی ہیں۔ لاہور میں ہونے والی شادی کے فنگشن میں ن لیگ کی ساری لیڈرشپ موجود تھی۔ اس لئے میں تو اپنے ہم وطنوں کو یہی کہوں گا کہ آپس میں نہ لڑا کرو یہ سب ایک ہیں۔ یہ پیسے والے، اقتدار والے سب ایک ہی طبقہ ہے۔ تمام سیاستدان شادی بیاہ کے فنگشن پر ایک ہوتے ہیں لہٰذا ان لیڈروں کے بیانات کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔ سب اندر سے ایک ہیں۔ میں اور امتنان اسلام آباد گئے تھے وہاں بہت سے اہم اشخاص سے ملاقات رہی میںنے آئی ایس آئی کے جنرل غفور سے کہا جناب اتنی جلدی کیا تھی دھرنے کے لوگوں کو چھڑانے کی۔ اس لئے کہ (3) بندوں کے گھروں پر توحملے ہوگئے تھے۔ 21 استعفے ہو گئے تھے۔ جن میں 16 استعفے تو سیالوی صاحب کے پاس تھے۔ چھ دن انتظار کر لیتے تو مسلم لیگ ن تو آدھی فارغ ہو گئی تھی۔ مریم اورنگزیب سے چائے پی ا ور ان سے گپ شپ لگائی۔ وہ بہت پریشان تھیں، ہماری مذہبی قیادت میں اس قسم کی گالم گلوچ پہلے کبھی سامنے نہیں آئی تھی۔ جو اس دھرنے کے قائدین نے ماں بہن کی گالیوں کو جس طرح ”معرب“ کیا یعنی عربی کے طرز پر گالی دینا۔ جس طرح انہوں نے کرکٹ کو حرام قرار دیا۔ایک نیا مذہب سامنے آیا ہے جس میں نماز پڑھنا اتنا ضروری نہیں ہے جتنا حرمت رسول پر ڈنڈے لیکر سڑکوں پر نکلنا ضروری ہے۔ آج طاہرالقادری سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔ میرا کام یہی رہا ہے کہ سینئرز سے ملاقاتیں کروں اور سونگھنے کی کوشش کروں۔
یہ نصف صدی کا قصہ ہے
دو چار برس کی بات نہیں
پچاس سالوں میں میںنے جتنا جھوٹ جتنی منافقت، جتنی چال بازی جتنی مکاری ہماری سیاست میں دیکھی، اتنی کہیں اورنہیں۔ بدقسمتی سے ہم جھوٹ بولتے ہیں، کھاتے ہیں پیتے ہیں، پہنتے ہیںاوڑھتے ہیں۔ صبح سے شام تک جھوٹ ہی جھوٹ کا سہارا لتے ہیں۔ ہم لوگوں کی باتوں پر کس طرح درست مشاہدہ نکال سکتے ہیں۔ عموماً 50 فیصد سے زیادہ تو ان کی باتوں میںجھوٹ ہوتا ہے۔ عدلیہ کو قدرت نے کمال صبر بخشا ہے۔ اسے صبر ایوب کہا جاتا ہے انہیں کچھ کہہ لیں وہ کچھ نہیں کہتے۔ ججوں میں برداشت کی انتہا ہو چکی ہے۔ ججوں کے صبر و تحمل کا مظاہرہ شروع کر رکھا ہے اچھی بات ہے۔ لیکن ڈریں اس وقت سے کہ اگر درجہ سوئم کے مجسٹریٹ تک یہ صبر آ گیا تو کیا بنے گا۔ لوگ کرسیاں اٹھا کر نچلے درجے کے مجسٹریٹ کے سر میں مارا کریں گے۔ جاوید ہاشمی نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ وہ پارلیمنٹ میں بھی کہہ چکے کہ نوازشریف میرا لیڈر ہے۔ وہ کہتے ہیں اتنا کچھ ہو جانے کے بعد میں نوازشریف میری بات نہیں سنتے۔ وہ مجھے وقت نہیں دیتے۔ لیکن اب وہ نواز شریف سے مل چکے۔ جاوید ہاشمی اور خواجہ سعد رفیق کے بارے کہانی چھپی تھی کہ دونوں تحریک انصاف میں جا رہے ہیں سعد رفیق نے انہیں تو دھکا دے دیا لیکن خود وہیں رہے۔ جاوید ہاشمی کو تحریک انصاف میں بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی کا ایک ہی حلقہ انتخاب تھا۔ میں نے شاہ محمود قریشی کو کہا کہ جاوید ہاشمی زیادہ دیر تحریک انصاف کے ساتھ نہیں چل پائیں گے۔ یہ پی ٹی آئی میں اندر سے جاسوسی کیلئے وہاں گئے تھے۔ جاوید ہاشمی نے عمران خان کی کمر میں اس وقت خنجر گھونپا جب انہوں نے نعرہ لگایا کہ میں ”مارشل لا“ کے خلاف اور عمران خان آئی ایس آئی کے ساتھ مل کر مارشل لا لگوانا چاہتا ہے۔ جاوید ہاشمی کو جنرل ضیاءالحق نے وہاں سے اٹھایا جو اس وقت ایم پی اے بھی نہیں تھے اور فیڈرل حکومت میں وزیر بنا دیا جہاں یہ کافی عرصہ رہے۔ یہ ضیاءالحق کے انتہائی حد تک خوشامدی تھے۔ اچانک انہیں لگا کہ مارشل لا بُری چیز ہے۔ انہوں نے علم جمہوریت اٹھا لیا۔ مجھے تو ان میں ”باغی“ کا کوئی خاصہ دکھائی نہیں دیا۔ حالانکہ ان کی کتاب بار بار پڑھی۔ یہ صحت کے وزیر تھے اور تمام وزیروں کو ”ویاگرا“ تقسیم کیا کرتے تھے اس لئے سب ان سے بہت خوش تھے۔ ملتان کے بڑے ہوٹل میں اس وقت دو دو فلور فارما سوٹیکل کے نمائندوں سے بک ہوا کرتے تھے۔ اور لوگوں کو جگہ نہیں ملتی تھی۔ کیونکہ صحت کا وزیر ادویات کا قیمتیں بڑھایا کرتا تھا۔ چنانچہ موصوف نے وہاں یہ کام احسن طریقہ سے کیا۔ ان کی کینٹ میں گھر ہے جس کی ڈیمانڈ 98 کروڑ کر رہے ہیں۔ ایک صحافی کے سوال پر انہوں نے جواب دیا تھا کہ میرا گھر لیز پر ہے۔ یونس حبیب کا اعترافی بیان موجود ہے کہ اس نے جاوید ہاشمی کو 4 کروڑ روپے دیئے اس دور میں اچانک انتخابات کا اعلان ہو گیا۔ تحریک انصاف کے لیڈروں کی پریس کانفرنس کی ریکارڈنگ موجود ہے جس میں انہوں نے جاوید ہاشمی پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے پیسے لے کر وہاں ٹکٹیں بانٹی ہیں۔ وزیراعلیٰ کے پی کے، پرویز خٹک نے کہا ہے کہ پشاور میں دہشتگردوں کا حملہ ہوا ہے جس میں پولیس نے بڑی دلیری اور بہادری دکھائی جس نے آرمڈ فورسز کے آنے سے پہلے ہی ان پر قابو پا لیا۔ یہ تمام کوشش ہم پچھلے چار سال سے کر رہے ہیں۔ پولیس اب غیر سیاسی ہو چکی ہے۔ اب وہ اپنی مرضی سے درست کام کرتی ہے۔ میں تو بڑے زمانے سے صوبوں کو کہہ رہا ہوں کہ پولیس کو بااختیار کر دیں۔ افغان مہاجرین کا مسئلہ بہت پرانا ہے۔ ہم شروع سے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے بارڈر محفوظ نہیں ہیں۔ یہ بارڈر بالکل کھلا ہوا تھا لوگ آزادی سے اِدھر اُدھر آتے جاتے تھے۔ اب وہاں فیسنگ کی جا چکی ہے۔ آرمی نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ جس سے حالات بہت بہتر ہو رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان دونوں کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ جنگ معاملات کا حل نہیں ہے۔ ہم کلیئر ہیں کہ ہماری جانب کوئی دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود نہیں دہشت گردی سے ہمیں نقصان پہنچ رہا ہے ہم ان کی کیونکر مدد کریں گے یہ بات عالمی طور پر بھی اٹھانی چاہئے۔ ہم تودہشت گردوں کے خلاف ہیں۔ ہمارے خلاف کوئی کرپشن کے ثبوت لے کر آئے ہم وضاحت کرنے کیلئے تیار ہیں۔ لوگ غلط الزام لگاتے ہیں۔ ہم تو اوپن ہیں۔ یہاں احتساب کے ادارے ہی اینٹی کرپشن ہے۔ ماضی کے حکمران خود چوریاں کرتے رہے وہ سمجھتے ہیں کہ ہر کوئی ان کے جیسا ہے اس لئے وہ ہم پر بھی الزام لگاتے ہیں۔ الزام لگانے والوں کے مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں اور اٹھ کر الزام لگا دیتے ہیں۔