نیو یارک (خصوصی رپورٹ) امریکی صحافی مائیکل وولف نے اپنی کتاب ”فائراینڈ فیوری“ میں انکشاف کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ فلسطین کے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ کی پلاننگ ہے کہ غزہ شہر جس پر حماس ایک دہائی سے حکمرانی کر رہی ہے، مصر کی عمل داری میں دے دیا جائے۔ جبکہ مغربی کنارے کا پورا علاقہ جو اس وقت فلسطینی اتھارٹی کے پاس ہے، وہاں سے فلسطینی صدر محمود عباس کا کنٹرول ختم کر کے اسے اددن کے حوالے کر دیا جائے۔ باقی ماندہ فلسطین کو محدود خود مختاری دے کر اس کا دارالحکومت یروشلم سے کچھ فاصلے پر موجود ایک گاﺅں میں بنانے کی منصوبہ بندی بھی ہے۔ امریکی مصنف کے مطابق اس پلان پر عمل درآمد کیلئے ٹرمپ نے سعودی عرب، مصر اور اردن کی مدد حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ کتاب لکھا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کو یقین ہے کہ سابق تین امریکی صدر کی مشرق وسطیٰ کی پالیسیاں بے کار تھیں۔”فائر اینڈ فیوری“ میں ٹرمپ کے داماد جیراڈ کو شز کے ایک قریبی دوست کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ جیرارڈ کو سعودی شہزادے محمد بن سلمان نے اپنی حمایت کی پیشکش کی اور اپنی جانب سے امریکہ کو تمام تر تعاون کا یقین دلایا ہے۔ مائیکل وولف کے مطابق ٹرمپ کئی مواقع پر یہ بات کہتے ہوئے پاءگئے ہیں کہ سعودی عرب کا نیاولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ان کا آدمی ہے۔ ٹرمپ کا ایک موقع پر یہ بھی کہنا تھا کہ عرب اسپرنگ کے بعد سے مصر اور سعودی عرب پریشان ہیں، کیونکہ وہ لیبیا، شام اور یمن کا حشر دیکھ چکے ہیں۔ اسی لئے وہ چاہتے ہیں کہ مصر کو غزہ کا شہر حوالے کر دیا جائے اور مغربی کنارے کو اردن کو دے کر مسئلہ حل کیا جائے۔ اس کے بعد مصر اور اردن ہی فلسطینی معاملات کو دیکھیں گے۔ ٹرمپ کا خیال ہے کہ کوئی ملک بھی حقیقی معنوں میں امریکہ کا دوست نہیں ہے۔ اگر چہ روس پر کچھ اعتبار کیا جا سکتا ہے لیکن بالآخر روس بھی برا ملک ہے۔ واضح رہے کہ اس کتاب کے حوالے سے جو اقتباسات اب تک دنیا بھر کے میڈیا میں شائع ہوئے ہیں، ان سے متعلق مصری سعودی حکومت کے کسی اعلیٰ عہدیدار نے کوئی موقف یا وضاحت نہیں دی ہے۔ ”فائر اینڈ فیوری“ میں ترکی کے حوالے سے مائیکل وولف کا کہنا ہے کہ ٹرمپ، امریکہ میں مقیم ترک باغی رہنما فتح اﷲ گولن کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ وہ ترکی کا یہ مطالبہ ہر گز نہیں مان سکتے کہ فتح اﷲ گولن کو ترک حکومت کے حوالے کیا جائے۔ امریکہ میں خود ساختہ جلاوطنی کاٹنے والے فتح اﷲ گولن، رجب طیب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے مرکزی کردار ہیں ۔ انہوں نے 2016ءمیں ترک حکومت کا تختہ الٹنے کا ماسٹر پلان بنایا تھا۔ اس سلسلے میں امریکی حکومت اور ترکی میں موجود فتح اﷲ گولن کے حامیوں میں مضبوط رابطہ تھا۔ کتاب سابق امریکی جنرل مائیکل فلائن کے حوالے سے لکھا ہے کہ ٹرمپ اول روز سے ایران کو ”برا ملک“ قرار دیتے ہیں اور ہر قیمت پر ایران کا ناطقہ بند کرنا چاہتے ہیں۔ اسی باب میں ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے مزید بتایا گیا ہے کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ میں چار کھلاڑیوں کا ذکر کیا ہے جس میں اسرائیل، مصر، سعودی عرب اور ایران کا نام لیا گیا ہے اور ایران کے سواتینوں ممالک کو امریکی پالیسی کا حمایتی قرار دیا ہے۔ ٹرمپ کے خیال میں اگر مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی پالیسی کو کوئی ملک چیلنج کر سکتا ہے تو وہ ایران ہے۔ کتاب کے مطابق صدر ٹرمپ اقوام متحدہ میں تعینات کی جانے والی امریکی سفیر کی ہیلی کو امریکہ کا سکریٹری خارجہ بنانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ وہ ان کی پالیسی سے مکمل اتفاق رکھتی ہیں اور ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا بھی چاہتی ہیں۔ صدر ٹرمپ کی صاجزادی ایوان کا، جو ان کی پالیسیوں کو مشرق وسطیٰ میں بالخصوص کامیاب دیکھنا چاہتی ہیں، بھی سعودی عرب سے متاثر ہوئی ہیں۔ دورہ سعودی عرب کے دوران ایوان کا اور ان کے شوہر جیرارڈ سمیت پورا امریکی وفد اس وقت بہت متاثر ہوا، جب سعودی شاہی خاندان نے ایک شاندار پارٹی میں ٹرمپ کا فقید المثال استقبال کیا۔ ٹامپ کو سعودی حکومت نے جس کرسی پر بٹھایا وہ ایک شاہی تخت نما تھی۔
